قاتل کے کوچہ میں ہمہ تن جاؤں بن کے پاؤں
قاتل کے کوچہ میں ہمہ تن جاؤں بن کے پاؤں
مر کر ہی تاکہ سو تو ذرا پاؤں تن کے پاؤں
کیوں کر رکھوں میں سیر کو اندر چمن کے پاؤں
اک عمر سے تو ہو رہے خوگر ہیں بن کے پاؤں
بھاری ہیں نازکی سے جو مہندی میں سن کے پاؤں
کہتے ہیں کر دیے مرے کیوں لاکھ من کے پاؤں
کیا ساتھ میرا دشت نوردی میں کر سکے
دو چار چوکڑی میں گئے تھک ہرن کے پاؤں
ہاتھوں کو ہے ہوا سے گریباں دری ہنوز
صحرا طلب ہیں مر کے بھی اندر کفن کے پاؤں
آنا ہے دیر دیر تو جانا ہے جلد جلد
رفتن کے اور ہیں ترے اور آمدن کے پاؤں
صدمہ سے ہاتھ کے کہیں گٹا اتر نہ جائے
کیوں کر دباؤں اس بت نازک بدن کے پاؤں
اے دل تو دیکھ اس کی سر زلف میں نہ جا
ناداں ہے سر پہ جو رکھے کالے کے پھن کے پاؤں
کچھ آج یہ بھی آتا ہے رندو پئے ہوئے
پڑتے ہیں بہکے بہکے جو شیخ زمن کے پاؤں
پہنچا ہے اب تو سحرؔ کلام اپنا دور دور
شہرت سے لگ گئے ہیں ہمارے سخن کے پاؤں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |