قاسم (1941)
by سعادت حسن منٹو
325202قاسم1941سعادت حسن منٹو

باورچی خانہ کی مٹ میلی فضا میں بجلی کا اندھا سا بلب کمزور روشنی پھیلا رہا تھا۔ اسٹوو پر پانی سے بھری ہوئی کیتلی دھری تھی۔ پانی کا کھولاؤ اورا سٹوو کے حلق سے نکلتے ہوئے شعلے مل جل کر مسلسل شور برپا کررہے تھے۔ انگیٹھیوں میں آگ کی آخری چنگاریاں راکھ میں سوگئی تھیں۔ دور کونے میں قاسم، گیارہ برس کا لڑکابرتن مانجھنے میں مصروف تھا۔ یہ ریلوے انسپکٹر صاحب کا بوائے تھا۔

برتن صاف کرتے وقت یہ لڑکا کچھ گنگنا رہا تھا۔ یہ الفاظ ایسے تھے جو اس کی زبان سے بغیر کسی کوشش کے نکل رہے تھے، ’’جی آیا صاحب! جی آیا صاحب۔۔۔! بس ابھی صاف ہو جاتے ہیں صاحب۔‘‘ ابھی برتنوں کو راکھ سے صاف کرنے کے بعد انھیں پانی سے دھو کر قرینے سے رکھنابھی تھا۔ اور یہ کام جلدی سے نہ ہوسکتا تھا۔ لڑکے کی آنکھیں نیند سے بند ہوئی جارہی تھیں۔ سر سخت بھاری ہورہا تھا مگر کام کیے بغیر آرام۔۔۔ یہ کیونکر ممکن تھا۔

اسٹوو بدستور ایک شور کے ساتھ نیلے شعلوں کو اپنے حلق سے اگل رہا تھا۔ کیتلی کا پانی اسی انداز میں کھل کھلا کر ہنس رہا تھا۔ دفعتاً لڑکے نے نیند کے ناقابل مغلوب حملے کو محسوس کرکے اپنے جسم کو ایک جنبش دی۔اور ’’جی آیا صاحب‘‘ گنگناتا پھرکام میں مشغول ہوگیا۔دیوار گیروں پرچنے ہوئے برتن سوئے ہوئے تھے۔ پانی کے نل سے پانی کی بوندیں نیچے میلی سل پر ٹپک رہی تھیں اور اداس آواز پیدا کررہی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ فضا پر غنودگی سی طاری ہے۔ دفعتاً آواز بلند ہوئی۔

’’قاسم۔۔۔! قاسم۔۔۔!‘‘

’’جی آیا صاحب!‘‘ لڑکا ان ہی الفاظ کی گردان کررہا تھا، بھاگا بھاگا اپنے آقا کے پاس گیا۔

انسپکٹر صاحب نے گرج کرکہا، ’’بیوقوف کے بچے آج پھر یہاں صراحی اور گلاس رکھنا بھول گیا ہے۔‘‘

’’ابھی لایا صاحب۔۔۔ ابھی لایا صاحب۔‘‘

کمرے میں صراحی اور گلاس رکھنے کے بعد وہ ابھی برتن صاف کرنے کے لیے گیا ہی تھا کہ پھر اسی کمرے سے آواز آئی۔

’’قاسم۔۔۔ قاسم!‘‘

’’جی آیا صاحب!‘‘ قاسم بھاگتا ہوا پھر اپنے آقا کے پاس گیا۔

’’بمبئی کا پانی کس قدر خراب ہے۔۔۔ جاؤ پارسی کے ہوٹل سے سوڈا لےکر آؤ۔ بس بھاگے جاؤ۔سخت پیاس لگ رہی ہے۔‘‘

’’بہت اچھا صاحب۔‘‘

قاسم بھاگا بھاگا گیا اور پارسی کے ہوٹل سے، جو گھر سے قریباً نصف میل کے فاصلے پر تھا، سوڈے کی بوتل لے آیا اور اپنے آقا کو گلاس میں ڈال کر دے دی۔

’’اب تم جاؤ۔ مگر اس وقت تک کیا کررہے ہو؟ برتن صاف نہیں ہوئے کیا؟‘‘

’’ابھی صاف ہو جاتے ہیں صاحب!‘‘

’’ برتن صاف کرنے کے بعد میرے دونوں کالے شو پالش کردینا۔ مگر دیکھنا احتیاط رہے۔ چمڑے پر کوئی خراش نہ آئے۔ ورنہ۔۔۔‘‘ قاسم کو ’’ورنہ‘‘ کے بعد کاجملہ بخوبی معلوم تھا۔ ’’بہت اچھا صاحب‘‘ کہہ کر وہ باورچی خانہ میں چلا گیا اور برتن صاف کرنے شروع کردیے۔اب نیند اس کی آنکھوں میں سمٹی چلی آرہی تھی۔ پلکیں آپس میں ملی جارہی تھیں، سر میں پگھلا ہوا سیسہ اتر رہا تھا۔۔۔ یہ خیال کرتے ہوئے کہ صاحب کے بوٹ بھی ابھی پالش کرنے ہیں، قاسم نے اپنے سر کو زور سے جنبش دی اور وہی راگ الاپنا شروع کردیا۔

’’ جی آیا صاحب۔ جی آیا صاحب! بوٹ صاف ہو جاتے ہیں صاحب۔‘‘

مگر نیند کا طوفان ہزار بند باندھنے پربھی نہ رکا۔ اب اسے محسوس ہوا کہ نیند ضرورغلبہ پاکے رہے گی۔ پرابھی برتنوں کو دھو کر انھیں اپنی جگہ پررکھنا باقی تھا۔ جب اس نے یہ سوچا تو ایک عجیب و غریب خیال اس کے دماغ میں آیا، ’’ بھاڑ میں جائیں برتن اور چولھے میں جائیں شو۔۔۔ کیوں نہ تھوڑی دیر اسی جگہ سو جاؤں اور پھر چند لمحہ آرام کرنے کے بعد۔۔۔‘‘ اس خیال کو باغیانہ تصور کرکے قاسم نے ترک کردیا۔ اور برتنوں پرجلدی جلدی راکھ ملنا شروع کردی۔

تھوڑی دیر کے بعد جب نیند پھر غالب آئی تو اس کے جی میں آئی کہ ابلتا ہو ا پانی اپنے سر پر انڈیل لے۔ اور اس طرح اس غیر مرئی طاقت سے جو اس کام میں حارج ہورہی تھی نجات پا جائے۔۔۔ مگر پانی اتنا گرم تھا کہ اس کے بھیجے تک کو پگھلا دیتا۔ چنانچہ منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مار مار کر اس نے باقی ماندہ برتن صاف کیے۔ یہ کام کرنے کے بعد اس نے اطمینان کا سانس لیا۔ اب وہ آرام سے سو سکتا تھا اور نیند۔۔۔ وہ نیند، جس کے لیے اس کی آنکھیں اور دماغ اس شدت سے انتظار کررہے تھے اب بالکل نزدیک تھی۔

باورچی خانے کی روشنی گل کرنے کے بعد قاسم نے باہر برآمدے میں اپنا بستر بچھا لیا اور لیٹ گیا۔ اس سے پہلے کہ نیند اسے اپنے نرم نرم بازوؤں میں تھام لے اس کے کان ’’شو شو‘‘ کی آواز سے گونج اٹھے۔ ’’بہت اچھا صاحب۔ ابھی پالش کرتا ہوں۔‘‘ قاسم ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھا۔ابھی قاسم شو کا ایک پیر بھی اچھی طرح پالش کرنے نہ پایا تھا کہ نیند کے غلبہ نے اسے وہیں سلا دیا۔سورج کی لال لال کرنیں مکان کے شیشوں سے نمودار ہوئیں۔ مگر قاسم سویا رہا۔

جب انسپکٹر صاحب نے اپنے نوکر کو باہر برآمدے میں اپنے کالے جوتوں کے پاس سویا دیکھا تو اسے ٹھوکر مار کے جگاتے ہوئے کہا، ’’یہ سور کی طرح یہاں بے ہوش پڑا ہے اور مجھے خیال تھا کہ اس نے شو صاف کرلیے ہوں گے۔ ’’نمک حرام!۔۔۔ ابے قاسم!‘‘

’’جی آیا صاحب!‘‘ قاسم فوراً اٹھ بیٹھا۔ ہاتھ میں جب اس نے پالش کرنے کا برش دیکھا اور رات کے اندھیرے کی بجائے دن کی روشنی دیکھی تو اس کی جان خطا ہوگئی۔ ’’میں سو گیا تھا صاحب! مگر۔۔۔ مگر شو ابھی پالش ہو جاتے ہیں صاحب۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے جلدی جلدی پالش کرنا شروع کردیا۔پالش کرنے کے بعد اس نے اپنا بستر بند کیا اور اسے اوپر کے کمرے میں رکھنے چلا گیا۔

’’قاسم!‘‘

’’جی آیا صاحب!‘‘

قاسم بھاگا ہوا نیچے آیا۔ اور اپنے آقا کے پاس کھڑا ہوگیا۔

’’دیکھو، آج ہمارے یہاں مہمان آئیں گے، اس لیے باورچی خانہ کے تمام برتن اچھی طرح صاف کررکھنا۔ فرش دھلا ہوا ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ تمہیں ڈرائنگ روم کی تصویریں، میزیں اور کرسیاں بھی صاف کرنا ہوں گی۔۔۔ سمجھے۔۔۔ خیال رہے میری میز پر ایک تیز دھار والا چاقو پڑاہے، اسے مت چھیڑنا! میں اب دفتر جارہا ہوں۔ مگر یہ کام دو گھنٹے سے پہلے پہلے ہو جائے۔‘‘

’’بہت بہتر صاحب۔‘‘

انسپکٹر صاحب دفتر چلے گئے۔ قاسم باورچی خانہ صاف کرنے میں مشغول ہوگیا۔ ڈیڑھ گھنٹے کی انتھک محنت کے بعد اس نے باورچی خانہ کا سارا کام ختم کردیا۔ اور ہاتھ پاؤں صاف کرنے کے بعد جھاڑن لے کر ڈرائنگ روم میں چلا گیا۔ وہ ابھی کرسیوں کو جھاڑن سے صاف کررہا تھا کہ اس کے تھکے ہوئے دماغ میں ایک تصویر سی کھنچ گئی۔ کیا دیکھتا ہے کہ اس کے گرد برتن ہی برتن پڑے ہیں اور پاس ہی راکھ کا ایک ڈھیر لگ رہاہے۔ ہوا زوروں پر چل رہی ہے جس سے وہ راکھ اڑ اڑ کر فضا کو خاکستری بنا رہی ہے۔ یکایک اس ظلمت میں ایک سرخ آفتاب نمودار ہوا جس کی کرنیں سرخ برچھیوں کی طرح ہر برتن کے سینے میں گھس گئیں۔ زمین خون سے شرابور ہوگئی۔

قاسم دہشت زدہ ہوگیا، اور اس وحشت ناک تصور کو دماغ سے جھٹک کر ’’جی آیا صاحب، جی آیا صاحب‘‘ کہتا پھر اپنے کام میں مشغول ہوگیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کے تصور میں ایک اور منظر رقص کرنے لگا۔ چھوٹے چھوٹے لڑکے آپس میں کوئی کھیل کھیل رہے تھے۔ دفعتاً آندھی چلنے لگی جس کے ساتھ ہی ایک بدنما اور بھیانک دیو نمودار ہوا۔ یہ دیو ان سب لڑکوں کو نگل گیا۔ قاسم نے خیال کیاکہ وہ دیو اس کے آقا کے ہم شکل تھا۔ گو کہ قدوقامت کے لحاظ سے وہ اس سے کہیں بڑا تھا۔ اب اس دیو نے زور زور سے ڈکارنا شروع کیا۔ قاسم سرسے پیر تک لرز گیا۔

ابھی تمام کمرہ صاف کرنا تھا۔ اور وقت بہت کم رہ گیا تھا۔ چنانچہ قاسم نے جلدی جلدی کرسیوں پر جھاڑن مارنا شروع کیا۔ کرسیوں کا کام ختم کرنے کے بعد وہ میز صاف کرنے کے لیے بڑھا تو اسے خیال آیا، ’’آج مہمان آرہے ہیں۔ خدا معلوم کتنے برتن صاف کرنا پڑیں گے۔ نیند کمبخت پھر ستائے گی۔ مجھ سے تو کچھ بھی نہ ہو سکے گا۔۔۔‘‘

وہ یہ سوچ رہا تھا اور میز پر رکھی ہوئی چیزوں کو پونچھ رہاتھا۔ اچانک اسے قلمدان کے پاس ایک کھلا ہوا چاقو نظر آیا۔۔۔ وہی چاقو جس کے متعلق اس کے آقا نے کہا تھا بہت تیز ہے، چاقو کا دیکھنا تھا کہ اس کی زبان پر یہ لفظ خود بخود جاری ہوگئے، ’’چاقو، تیز دھار چاقو! یہی تمہاری مصیبت ختم کرسکتا ہے۔‘‘ کچھ اور سوچے بغیر قاسم نے تیز دھار چاقو اٹھا کے اپنی انگلی پر پھیر لیا۔ اب وہ شام کو برتن صاف کرنے کی زحمت سے بہت دور تھا اور نیند۔۔۔ پیاری پیاری نیند اسے بآسانی نصیب ہوسکتی تھی۔ انگلی سے خون کی سرخ دھار بہہ رہی تھی۔ سامنے والی دوات کی سرخ روشنائی سے کہیں چمکیلی۔ قاسم اس خون کی دھار کو مسرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اور منہ میں گنگنا رہا تھا، ’’نیند، نیند۔۔۔ پیاری نیند۔‘‘

تھوڑی دیربعد وہ بھاگا ہوا اپنے آقا کی بیوی کے پاس گیا جو زنان خانہ میں بیٹھی سلائی کررہی تھی اور اپنی انگلی دکھا کر کہنے لگا، ’’دیکھیے بی بی جی!‘‘

’’ارے قاسم یہ تو نے کیا کیا۔۔۔؟ کم بخت، صاحب کے چاقو کو چھیڑا ہوگا تو نے؟‘‘

قاسم مسکرا دیا، ’’بی بی جی۔۔۔ بس میز صاف کررہا تھا کہ اس نے کاٹ کھایا۔‘‘

’’سؤر اب ہنستا ہے، ادھر آ، میں اس پر کپڑا باندھ دوں۔۔۔ پر اب یہ تو بتا کہ آج یہ برتن تیرا باپ صاف کرے گا؟‘‘

قاسم اپنی فتح پر جی ہی جی میں بہت خوش ہوا۔انگلی پر پٹی بندھوا کر قاسم پھر کمرے میں چلا آیا۔ میز پر سے خون کے دھبے صاف کرنے کے بعد اس نے خوشی خوشی اپنا کام ختم کردیا۔ سامنے طوطے کا پنجرہ لٹک رہا تھا۔ اس کی طرف دیکھ کر قاسم نے مسرت بھرے لہجہ میں کہا، ’’اب اس نمک حرام باورچی کو برتن صاف کرنے ہوں گے۔۔۔اور ضرور صاف کرنے ہوں گے۔ کیوں میاں مٹھو؟‘‘ شام کے وقت مہمان آئے اور چلے گئے۔ باورچی خانہ میں جھوٹے برتنوں کا ایک طومار سا لگ گیا۔ انسپکٹر صاحب قاسم کی انگلی دیکھ کر بہت برسے اور جی کھول کر اسے گالیاں دیں۔ مگر اسے مجبور نہ کرسکے۔۔۔ شاید اس وجہ سے کہ ایک بار ان کی اپنی انگلی میں قلم تراش چبھ جانے سے بہت درد ہوا تھا۔

آقا کی خفگی آنے والی مسرت نے بھلا دی اور قاسم کودتا پھاندتا اپنے بستر پر جالیٹا۔ تین چار روز تک وہ برتن صاف کرنےکی زحمت سے بچا رہا مگر اس کے بعد انگلی کا زخم بھر آیا۔۔۔ اب وہی مصیبت پھر نمودار ہوگئی۔

’’قاسم۔۔۔ صاحب کی جرابیں اور قمیص دھو ڈ الو۔‘‘

’’بہت اچھا بی بی جی۔‘‘

’’قاسم اس کمرے کا فرش کتنا میلا ہورہا ہے۔ پانی لاکر ابھی صاف کرو۔ دیکھنا کوئی داغ دھبہ باقی نہ رہے!‘‘

’’بہت اچھا صاحب۔‘‘

’’قاسم، شیشے کے گلاس کتنے چکنے ہورہے ہیں، انھیں نمک سے ابھی ابھی صاف کرو۔‘‘

’’ابھی کرتا ہوں بی بی جی۔‘‘

’’قاسم، ابھی بھنگن آرہی ہے۔ تم پانی ڈالتے جانا۔ وہ سیڑھیاں دھو ڈالے گی۔‘‘

’’بہت اچھا صاحب۔‘‘

’’قاسم ذرا بھاگ کے ایک آنہ کا دہی تو لے آنا!‘‘

’’ابھی چلا بی بی جی۔‘‘

پانچ روز اس قسم کے احکام سننے میں گزر گئے۔ قاسم کام کی زیادتی اور آرام کے قحط سے تنگ آگیا۔ ہر روز اسے نصف شب تک کام کرنا پڑتا۔ پھر بھی علی الصباح چار بجے کے قریب بیدار ہو کر ناشتے کے لیے چائے تیار کرنا پڑتی۔ یہ کام قاسم کی عمر کے لڑکے کے لیے بہت زیادہ تھا۔

ایک روز انسپکٹر صاحب کی میز صاف کرتے وقت اس کا ہاتھ خود بخود چاقو کی طرف بڑھا۔ اور ایک لمحہ کے بعد اس کی انگلی سے خون بہنے لگا۔ انسپکٹر صاحب اور ان کی بیوی قاسم کی اس حر کت پرسخت خفا ہوئے۔ چنانچہ سزا کی صورت میں اسے شام کا کھانا نہ دیا گیا۔ مگر قاسم خوش تھا۔۔۔ ایک وقت روٹی نہ ملی۔ انگلی پر معمولی سا زخم آگیا۔ مگر برتنوں کا انبار صاف کرنے سے تو نجات ملی گئی۔۔۔ یہ سودا کیا برا ہے؟

چند دنوں کے بعد اس کی انگلی کا زخم ٹھیک ہوگیا۔ اب پھر کام کی وہی بھرمار تھی۔ پندرہ بیس روز گدھوں کی سی مشقت میں گزر گئے۔ اس عرصہ میں قاسم نے بارہا ارادہ کیا کہ چاقو سے پھر انگلی زخمی کرلے۔ مگر اب میز پر سے وہ چاقو اٹھا لیا گیا تھا اور باورچی خانہ والی چھری کُند تھی۔

ایک روز باورچی بیمار پڑ گیا۔ اب قاسم کو ہر وقت باورچی خانہ میں رہنا پڑا۔ کبھی مرچیں پیستا، کبھی آٹا گوندھتا، کبھی کوئلے سلگاتا، غرض صبح سے لےکر شام تک اس کے کانوں میں ’’ابے قاسم یہ کر! ابے قاسم وہ کر!‘‘ کی صدا گونجتی رہتی۔باورچی دو روز تک نہ آیا۔۔۔ قاسم کی ننھی سی جان اور ہمت جواب دے گئی۔ مگر سوائے کام کے اور چارہ ہی کیا تھا۔

ایک روز انسپکٹر صاحب نے اسے الماری صاف کرنے کو کہا جس میں ادویات کی شیشیاں اور مختلف چیزیں پڑی تھیں۔ الماری صاف کرتے وقت اسے داڑھی مونڈنے کا ایک بلیڈ نظر آیا۔ بلیڈ پکڑتے ہی اس نے اپنی انگلی پر پھیر لیا۔ دھار تھی بہت تیز، انگلی میں دور تک چلی گئی۔ جس سے بہت بڑا زخم بن گیا۔۔۔

قاسم نے بہت کوشش کی کہ خون نکلنا بند ہو جائے مگر زخم کا منہ بڑا تھا۔ سیروں خون پانی کی طرح بہہ گیا۔ یہ دیکھ کرقاسم کا رنگ کاغذ کی مانند سپید ہوگیا۔ بھاگا ہوا انسپکٹر صاحب کی بیوی کے پاس گیا۔۔۔

’’ بی بی جی، میری انگلی میں صاحب کا استرا لگ گیا ہے۔‘‘

جب انسپکٹر صاحب کی بیوی نے قاسم کی انگلی کو تیسری مرتبہ زخمی دیکھا تو فوراً معاملے کو سمجھ گئی۔ چپ چاپ اٹھی اور کپڑا نکال کر اس کی انگلی پر باندھ دیا اور کہا، ’’قاسم!اب تم ہمارے گھر میں نہیں رہ سکتے۔‘‘

’’کیوں بی بی جی؟‘‘

’’یہ صاحب سے پوچھنا۔‘‘

صاحب کا نام سنتے ہی قاسم کارنگ اور پیلا پڑ گیا۔ چار بجے کے قریب انسپکٹر صاحب دفتر سے لوٹے اور اپنی بیوی سے قاسم کی نئی حرکت سن کر اسے فوراً اپنے پاس بلایا۔

’’کیوں میاں! یہ انگلی ہر روز زخمی کرنے کیا معنی؟‘‘

قاسم خاموش کھڑارہا۔

’’تم نوکر لوگ یہ سمجھتے ہو کہ ہم اندھے ہیں اور ہمیں بار بار دھوکا دیا جاسکتا ہے۔۔۔ اپنا بوریہ بستر دبا کر ناک کی سیدھ میں یہاں سے بھاگ جاؤ۔ ہمیں تم جیسے نوکروں کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ سمجھے۔۔۔!‘‘

’’مگر۔۔۔ مگر صاحب۔‘‘

’’صاحب کا بچہ۔۔۔ بھاگ جا یہاں سے، تیری بقایا تنخواہ کا ایک پیسہ بھی نہیں دیا جائے گا۔۔۔ اب میں اور کچھ نہیں سننا چاہتا۔۔۔‘‘ قاسم کو افسوس نہ ہوا بلکہ اسے خوشی محسوس ہوئی کہ چلو کام سے کچھ دیر کے لیے چھٹی مل گئی۔ گھر سے نکل وہ اپنی زخمی انگلی سے بے پروا سیدھا چوپاٹی پہنچا اور وہاں ساحل کے پاس ایک بنچ پر لیٹ گیا اور خوب سویا۔

چند دنوں کے بعد اس کی انگلی کا زخم بد احتیاطی کے باعث سیپٹک ہوگیا۔ سارا ہاتھ سوج گیا۔ جس دوست کے پاس وہ ٹھہرا تھا اس نے اپنی دانست کے مطابق اس کا بہتر علاج کیا مگر تکلیف بڑھتی گئی۔ آخر قاسم خیراتی ہسپتال میں داخل ہوگیا۔ جہاں اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔اب جب کبھی قاسم اپنا کٹا ہوا ٹنڈ منڈ ہاتھ بڑھا کر فلورا فاؤنٹین کے پاس لوگوں سے بھیک مانگتا ہے تو اسے وہ بلیڈ یاد آجاتا ہے جس نے اسے بہت بڑی مصیبت سے نجات دلائی۔ اب وہ جس وقت چاہے سر کے نیچے اپنی گدڑی رکھ کر فٹ پاتھ پرسو سکتا ہے۔ اس کے پاس ٹین کا ایک چھوٹا سا بھبھکا ہے جس کو کبھی نہیں مانجھتا، اس لیے کہ اسے انسپکٹر صاحب کے گھر کے وہ برتن یاد آجاتے ہیں جو کبھی ختم ہونے میں نہیں آتے تھے۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.