قاصد اس کا پیام کچھ بھی ہے

قاصد اس کا پیام کچھ بھی ہے
by میر محمدی بیدار

قاصد اس کا پیام کچھ بھی ہے
کہہ دعا یا سلام کچھ بھی ہے

سخن مہر خواہ حرف عتاب
اس کے منہ کا کلام کچھ بھی ہے

صاف یا درد بادۂ گلگوں
ساقیٔ لالہ فام کچھ بھی ہے

کیا غم ہجر کیا سرور وصال
گزراں ہے دوام کچھ بھی ہے

اس رخ و زلف سے کہ دوں تشبیہ
خوبیٔ صبح و شام کچھ بھی ہے

یاد میں اپنے یار کے رہنا
بہتر اور اس سے کام کچھ بھی ہے

تو جو بیدارؔ یوں پھرے ہے خراب
پاس ناموس و نام کچھ بھی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse