قتل و خون کی سرخیاں

قتل و خون کی سرخیاں (1954)
by سعادت حسن منٹو
319920قتل و خون کی سرخیاں1954سعادت حسن منٹو

آج کل اخباروں میں سب سے نمایاں سرخیاں قتل و خون کی ہوتی ہیں۔ جہاں تک سرخیوں کا تعلق ہے یہ اپنی جگہ پر ٹھیک ہیں، لیکن آدمی سوچتا ہے کہ آخر انسان، انسان کے خون کا پیاسا کیوں ہو رہا ہے۔ یہ جذبہ اس کی جبلت کے تحت ہے، اس سے مجھے انکار نہیں لیکن خاص طور پر آج کل اس جذبے کی اتنی فراوانی کیوں ہے۔ صبح اخبار اٹھاؤ تو جلی سرخیوں میں قتل و خون کی وارداتوں کی ہولناک تفصیلات ملتی ہیں، لیکن خفی معاملہ کیا ہے۔ انسان اتنا سفاک اور بہیم کیوں ہو گیا ہے؟ کیا انسانیت سے ہمیں دست بردار ہو جانا چاہیئے۔ کیا ہمارا اس شے سے جسے ضمیر کہا جاتا ہے اعتبار یا اعتقاد اٹھ جانا چاہیئے، کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان سوالوں کا کیا جواب ہے یا کیا ہونا چا ہیئے۔

ہم نے سوچا تھا کہ تقسیم کے وقت جو کچھ ہوا ہے، یہ انسانیت کے منہ پر جو کالک ملی گئی ہے، یہ جو ننگی عورتوں کے جلوس نکالے گئے ہیں، یہ جو لاکھوں انسانوں کو ہلاک کیا گیا ہے، یہ جو ہزاروں عورتوں کی عصمت دری کی گئی ہے، اس کے بعد انسان کی بہیمیت کی تشنگی کسی حد تک دور ہو جائے گی، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ مائل بہ ترقی ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات میں جو کچھ ہوا وہ تھوک طور پر ہوا، لیکن اب قتل و غارت کی خوردہ فروشی جاری ہے۔ ہر روز ایک نہ ایک انسان دوسرے انسان کے ہاتھ قتل ہوتا ہے، بیسیوں زخمی ہوتے ہیں۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ چند افراد اتنے سفاک کیوں ہیں، کیوں ان کے دل و دماغ پر قتل و غارت گری کا بھوت سوار رہتا ہے؟ جو حادثہ گزر چکا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس کی شدت کم کی جا سکتی تھی، مگر افسوس ہے کہ اس کی کوشش طرفین میں سے کسی نے بھی بطریق احسن نہ کی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج ہم اپنے درمیان خوفناک مجرم دیکھ رہے ہیں۔ جن کے کارناموں کے تذکرے ہم آئے دن اخباروں میں پڑھتے ہیں۔ وہ عورتیں اور لڑکیاں جنہیں ’’اغوا شدہ‘‘ کہا جاتا ہے ان کا مسئلہ الگ ہے، ان کے بطن سے جو بچے پیدا ہوئے ہیں ان کے مقابلے میں بے جان عمارتیں ہیں۔ معلوم نہیں ان کی اینٹوں کا محافظ کون ہے۔ اور ان سب کے اوپر وہ لوگ ہیں، وہ چند افراد جن کے ہاتھ پچھلے فسادات میں خنجر اور بندوق سے آشنا ہوئے تھے۔ ان کو قابو میں رکھنے کا کیا سامان کیا گیا ہے۔

اصل میں یہ لوگ، یہ چند افراد ایک حادثے کی پیداوار ہیں۔ یہ قتل و خون کے عادی نہیں تھے، مگر حالات نے انہیں ایسا بنا دیا۔ وہ اپنی ماؤں سے پیار کرتے تھے، دوستوں سے محبت کرتے تھے۔ ان کو اپنی بہو بیٹیوں کی عزت و ناموس کا پاس تھا۔ ان کو خدا کا خوف بھی تھا مگر یہ سب کچھ ایک حادثے نے اڑا دیا۔ ایسے حادثہ نے جو چشم فلک نے شاید ہی کبھی دیکھا ہو۔ جو کچھ ہو چکا ہے، اب اس پر تبصرہ کرنا فضول ہے، لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس کے نتائج پر غور کریں، ان باریکیوں کا مطالعہ کریں جو پیدا ہو چکی ہیں اور یہ کام مقننین کا نہیں، عدالتوں کا نہیں، نفسیات کے ماہروں کا ہے جو معاملے کی تہہ تک پہنچیں اور اس کا کوئی علاج تجویز کریں۔

مجھے حیرت ہے کہ ہماری حکومت اس معاملے پر فوری توجہ کیوں نہیں دے رہی۔ ہر روز قتل کی کوئی نہ کوئی واردات ہوتی ہے اور اب تو کھلی لڑائیاں شروع ہو گئی ہیں۔ ایک پارٹی دوسری پارٹی کے مقابلہ میں آتی ہے۔ پستول چلتے ہیں۔ چھرے بھونکے جاتے ہیں۔ سوڈے کی بوتلیں اور پتھر پھینکے جاتے ہیں۔ جو چیز بھی ہاتھ میں آئے بڑی فراخدلی سے دوسرے کو مجروح کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ معلوم نہیں اس وقت محتسب کہاں ہوتے ہیں۔ پولیس کے احتساب کے متعلق میں کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ حالانکہ وقتی طور پر اس کی اشد ضرورت ہوتی ہے، لیکن سب سے بڑا سوال نفسیاتی ہے۔ جس کا ذکر میں اوپر کر چکا ہوں۔ اگر موجودہ قتل و خون کی لہروں کا نفسیاتی جائزہ نہ لیا گیا تو مجھے خوف ہے کہ حالات بہت ابتر ہو جائیں گے اور بربریت کا دور دورہ شروع ہو جائے گا۔ شروع ہو جائے گا کیا۔۔۔؟ شروع ہو چکا ہے۔

کون سا دن ہوتا ہے جب کوئی قتل نہیں ہوتا اور دن دہاڑے نہیں ہوتا۔ پھر مصیبت یہ ہے کہ قتل کرنے والے ایسے ہوتے ہیں جن کے خلاف لوگ گواہی دینے سے کتراتے ہیں کیونکہ ان کو اپنی جان کا خوف ہوتا ہے۔ ایسا اکثر ہوا ہے کہ قتل ہوا اور بیچ کھیت ہوا۔ پولیس نے مجرم کو گرفتار بھی کر لیا۔ عدالت میں بھی پیش کیا، مگر گواہان ندارد، جو گواہ عینی تھے وہ عدالت میں کنی کترا گئے اور نتیجہ یہ کہ قاتل صاف بری۔ میں سزائے موت کا قائل نہیں، میں جیل کے حق میں بھی نہیں، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ جیل انسان کی اصلاح نہیں کر سکتا، لیکن میں ایسے اصلاح خانوں کے حق میں ہوں جو غلط رو انسانوں کو صحیح راستہ بتا سکیں۔ ہم ایسے درویشوں، ایسے بزرگوں کی عام باتیں کرتے ہیں جن کے ایک لفظ پر بڑے بڑے بدکرداروں نے اپنے برے رستے چھوڑ دیے۔ کوئی معمولی سا فقیر ملا اور شیطان سیرت، فرشتہ بن گئے۔

روحانیت یقیناً کوئی چیز ہے، آج کے سائنس کے زمانے میں جس میں ایٹم بم تیار کیا جا سکتا ہے اور جراثیم پھیلائے جا سکتے ہیں، یہ چیز بعض اصحاب کے نزدیک مہمل ہو سکتی ہے لیکن وہ لوگ جو نماز اور روزے، آرتی اور کیرتن سے روحانی طہارت حاصل کرتے ہیں ہم انہیں پاگل نہیں کہہ سکتے۔ یقیناً روحانیت مسلم چیز ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ بدکرداروں، قاتلوں اور سفاکوں کی نجات کا راستہ صرف روحانی تعلیم ہے، ملائی طریق پر نہیں، ترقی پسند اصولوں پر۔ تاکہ ان لوگوں کو معلوم ہو کہ سقف نیلوفری کے نیچے ان کے لئے اچھی سے اچھی جگہ موجود ہے اور یہ کہ جو کچھ ان سے ہوا ہے صرف حالات کے باعث ہوا ہے اور یہ کہ انہیں صرف اس وجہ سے کہ ان سے ایک خطا ہو چکی ہے، ایک جرم سرزد ہو چکا ہے، جرموں اور خطاؤں کا عادی نہیں ہونا چا ہیئے۔

ان کو یہ بھی سمجھانا چا ہیئے کہ خدا نے انسان ہی کو افضل ترین مقام بخشا ہے۔ اس کو نبیوں کا خاتم بنایا ہے، انسان کا جو مرتبہ ہے اگر ان کے ذہن نشین ہو جائے گا تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ اپنی لغزشوں سے یقیناً آگاہ ہو جائیں گے اور اس روحانی غسل سے شفایاب ہوں گے۔ ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق۔۔۔ یہ درست ہے مگر جو ہنگامے ہمیں آج کل اپنے گھروں اور بازاروں میں برپا نظر آتے ہیں، ان سے محفوظ و مامون رہنا ہی انسانیت کا تقاضا ہے۔ لیکن یہ انسانیت کہاں ہے۔۔۔؟ اس کے رکھوالے کہاں ہیں؟


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.