قتل پر باندھ چکا وہ بت گمراہ میاں

قتل پر باندھ چکا وہ بت گمراہ میاں
by نظیر اکبر آبادی

قتل پر باندھ چکا وہ بت گمراہ میاں
دیکھیں اب کس کی طرف ہوتے ہیں اللہ میاں

نزع میں چشم کو دیدار سے محروم نہ رکھ
ورنہ تا حشر یہ دیکھیں گی تری راہ میاں

تو جدھر چاہے ادھر جا کہ سحر سے تا شام
میں بھی سائے کی طرح ہوں ترے ہمراہ میاں

ہم تری چاہ سے چاہیں گے اسے بھی دل سے
جس کو جی چاہے اسے شوق سے تو چاہ میاں

لیکن اتنا ہے کہ اس چاہ میں دریا ہیں کئی
ایسے ایسے کئی ہیں جن کی نہیں تھاہ میاں

آگے مختار ہو تم ہم جو تمہیں چاہے ہیں
اس سبب سے تمہیں ہم کرتے ہیں آگاہ میاں

جب دم نزع نہ آیا وہ ستم گر تو نظیرؔ
مر گیا کہہ کے یہ حسرت زدہ اے واہ میاں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse