قدرت حق ہے صباحت سے تماشا ہے وہ رخ
قدرت حق ہے صباحت سے تماشا ہے وہ رخ
خال مشکیں دل فرعوں ید بیضا ہے وہ رخ
نور جو اس میں ہے خورشید میں وہ نور کہاں
یہ اگر حسن کا چشمہ ہے تو دریا ہے وہ رخ
پھوٹے وہ آنکھ جو دیکھے نگہ بد سے اسے
آئینہ سے دل عارف کے مصفا ہے وہ رخ
بزم عالم ہے توجہ سے اسی کے آباد
شہر ویراں ہے اگر جانب صحرا ہے وہ رخ
سامری چشم فسوں گر کی فسوں سازی سے
لب جاں بخش کے ہونے سے مسیحا ہے وہ رخ
دم نظارہ لڑے مرتے ہیں عاشق اس پر
دولت حسن کے پیش آنے سے دنیا ہے وہ رخ
سایہ کرتے ہیں ہما اڑ کے پروں سے اپنے
تیرے رخسار سے دلچسپ ہو عنقا ہے وہ رخ
گل غلط لالہ غلط مہر غلط ماہ غلط
کوئی ثانی نہیں لا ثانی ہے یکتا ہے وہ رخ
کون سا اس میں تکلف نہیں پاتے ہر چند
نہ مرصع نہ مذہب نہ مطلا ہے وہ رخ
خال ہندو ہیں پرستش کے لیے آئے ہیں
پتلیاں آنکھوں کی دو بت ہیں کلیسا ہے وہ رخ
کون سا دل ہے جو دیوانہ نہیں ہے اس کا
خط شب رنگ سے سرمایۂ سودا ہے وہ رخ
اس کے دیدار کی کیوں کر نہ ہوں آنکھیں مشتاق
دل ربا شے ہے عجب صورت زیبا ہے وہ رخ
تا کجا شرح کروں حسن کے اس کے آتشؔ
مہر ہے ماہ ہے جو کچھ ہے تماشا ہے وہ رخ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |