قد صنم سا اگر آفریدہ ہونا تھا
قد صنم سا اگر آفریدہ ہونا تھا
نہ سرو باغ کو اتنا کشیدہ ہونا تھا
ہوا ہے زلف سے گستاخ کس قدر شانہ
ہمارے پاس بھی دست بریدہ ہونا تھا
نہ کھینچنا تھا زلیخا کو دامن یوسف
اسی کا پردۂ عصمت دریدہ ہونا تھا
دیا نہ ساتھ جو صبر و قرار نے نہ دیا
روانہ ملک عدم کو جریدہ ہونا تھا
مٹائے سے کوئی مٹتا ہے باطلوں کے حق
کچھ اختیار سے کیا برگزیدہ ہونا تھا
نہ جانتا تھا غضب ہے نگہ کا تیر اے دل
تجھی کو سامنے آفت رسیدہ ہونا تھا
رلاتا شام و سحر کس طرح نہ طالع پست
بلند سر سے مرے آب دیدہ ہونا تھا
گریز یار نے برباد کر دیا ہم کو
غبار راہ غزال رمیدہ ہونا تھا
نہ آئی دامن دایہ میں نیند اے آتشؔ
درون دامن خاک آرمیدہ ہونا تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |