قرآں کتاب ہے رخ جاناں کے سامنے
قرآں کتاب ہے رخ جاناں کے سامنے
مصحف اٹھا لوں صاحب قرآں کے سامنے
جنت ہے گرد کوچۂ جاناں کے سامنے
دوزخ ہے سرد سینۂ سوزاں کے سامنے
سکتہ ابھی ہو روح سکندر کو شرم سے
آئینہ آئے گر ترے حیراں کے سامنے
بہر امید گر اسے پھیلاؤں سوئے یار
دامان دشت تنگ ہو داماں کے سامنے
دست جنوں سے وہ بھی نہ وحشت میں بچ سکا
پردہ جو کچھ رہا تھا گریباں کے سامنے
مشاطہ ہو عزیز زلیخا اگر وہ لائے
اس مہر مصر کو مہ کنعاں کے سامنے
نادان کہہ رہے ہیں جسے آفتاب حشر
ذرہ ہے اس کے روئے درخشاں کے سامنے
دم بند اس لتوڑے کی جرأت نے کر دیا
کرتا ہے ریز بلبل بستاں کے سامنے
دیوار سرخ خون سے دیکھی پتا ملا
قاصد ٹھہر گیا در جاناں کے سامنے
کہتے ہیں روز وصل جسے پست حوصلہ
بے قدر ہے مری شب ہجراں کے سامنے
تقریر دل جلاتی ہے سننے سے اے سرورؔ
آتا ہے کون مجھ شرر افشاں کے سامنے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |