قصر رنگیں سے گزر باغ و گلستاں سے نکل
قصر رنگیں سے گزر باغ و گلستاں سے نکل
ہے وفا پیشہ تو مت کوچۂ جاناں سے نکل
نکہت زلف یہ کس کی ہے کہ جس کے آگے
ہوئی خجلت زدہ بو سنبل و ریحاں سے نکل
گو بہار اب ہے ولے روز خزاں اے بلبل
یک قلم نرگس و گل جاویں گے بستاں سے نکل
امتحاں کرنے کو یوں دل سے کہا ہم نے رات
اے دل غمزدہ اس کاکل پیچاں سے نکل
کھا کے سو پیچ کہا میں تو نکلنے کا نہیں
مگر اے دشمن جاں چل تو مرے ہاں سے نکل
ہو پریشانی سے جس کی مجھے سو جمعیت
کس طرح جاؤں میں اس زلف پریشاں سے نکل
لاکھ زندان پر آفات میں ہوتا ہے وہ قید
جو کوئی جاتا ہے اس طور کے زنداں سے نکل
مجھ سے ممکن نہیں محبوب کی قطع الفت
گرچہ میں جاؤں گا اس عالم امکاں سے نکل
چاہ میں مجھ کو یہ مرشد کا ہے ارشاد نظیرؔ
آبرو چاہے تو مت چاہ زنخداں سے نکل
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |