قفس سے چھوٹنے کی کب ہوس ہے
قفس سے چھوٹنے کی کب ہوس ہے
تصور بھی چمن کا ہم کو بس ہے
بجائے رخنۂ دیوار گلشن
ہمیں صیاد اب چاک قفس ہے
فغاں کرتا ہی رہتا ہے یہ دن رات
الٰہی دل ہے میرا یا جرس ہے
کٹیں گے عمر کے دن کب کے بے یار
مجھے اک اک گھڑی سو سو برس ہے
ہماری داد کے تئیں کون پہنچے
نہ کوئی مونس نہ کوئی فریاد رس ہے
گلی میں یار کی ہو جائیے خاک
مرے دل میں یہ مدت سے ہوس ہے
سفر دنیا سے کرنا کیا ہے تاباںؔ
عدم ہستی سے راہ یک نفس ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |