قفس میں اشک حسرت پر مدار زندگانی ہے
قفس میں اشک حسرت پر مدار زندگانی ہے
یہی دانے کا دانا ہے یہی پانی کا پانی ہے
ملے تھے آج برسوں میں مگر اللہ کی قدرت
وہی صورت وہی رنگت وہی جوش جوانی ہے
ہمیں وہ جان بھی لیں گے ہمیں پہچان بھی لیں گے
اتر جائے گا سب نشہ ابھی چڑھتی جوانی ہے
کلیجے سے لگا رکھوں نہ کیوں درد جدائی کو
یہی تو اک دل مرحوم کی باقی نشانی ہے
یہ سچ ہے یا غلط ہم نے سنا ہے مرنے والوں سے
ترے خنجر میں قاتل چشمۂ حیواں کا پانی ہے
بتائے جاتے ہیں اوصاف وہ اپنی اداؤں کے
یہ شان دل رباعی ہے یہ طرز جاں ستانی ہے
یہاں کیا جانیے کس طرح دیکھا ہے تصور میں
وہاں اب تک وہی پردے کے اندر لن ترانی ہے
کریں تسخیر آؤ مل کے ہم تم دونوں عالم کو
ادھر جادو نگاہی ہے ادھر جادو بیانی ہے
جلیلؔ اک شعر بھی خالی نہ پایا درد و حسرت سے
غزل خوانی نہیں یہ در حقیقت نوحہ خوانی ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |