قواعد میر/جمع کا بیان

جمع کا بیان


اُردو میں جمع کے قاعدے عربی فارسی وغیرہ سے الگ ہیں اور بہت با اصول ہیں۔

قاعدہ: فارسی کا وہ لفظ جس کا بدل اُردو میں موجود ہے اس کو مُفرد بغیر ترکیب اضافی اردو میں نہیں بولتے جیسے “چشم دندان گوش”۔ ان کی جمع بقاعدۂ اُردو ناجائز اور غیر فصیح ہے۔ جیسے :

چشموں سے چل کےچوم لوں تربت حسین کی

اب چشموں، گوشوں، دندانوں نہیں بولتے۔

قاعدہ: جس اسم پر حرف جر عربی فارسی ہو اُس کو بھی بقاعدۂ ہندی جمع نہیں کرتے جیسے حقیقت اسم ہے، اس کی جمع حقیقتیں بولتے ہیں لیکن فی الحقیقت، در حقیقت، فی الجملہ کو در حقیقتیں، فی الحقیقتیں، فی الجملوں بولنا ناجائز ہے۔

قاعدہ: فارسی عطف و اضافت کی حالت میں اسم ہے تو اس کو بقاعدۂ ہندی جمع نہیں کر سکتے جیسے بارِ محبت کو بارِ محبتوں، رنج و غم کو رنج و غموں نہیں بولتے۔ ہاں اُردو اضافت اور حذف حرف عطف کر کے بولنا جائز ہے جیسے محبتوں کا بار اور رنج و غموں، یا رنج و غموں سے حالت تباہ ہے۔ اور اگر دو اسم ایسے ہیں جو بعد فک اضافت مستعمل ہیں ان کو جمع ہندی بنانا جائز ہے۔ جیسے صاحبدلوں نے کہا۔

اسم مفعول ترکیبی کو اردو میں بقاعدۂ ہندی جمع کرنا جائز ہے جیسے خدا شناس، تعلیم یافتہ، سند یافتہ، دل باختہ، ستم رسیدہ۔ ان کو تعلیم یافتوں، سند یافتوں، دل باختوں، ستم رسیدوں بول سکتے ہیں۔اگر اسم صفت غیر اضافی ہے تو بقاعدۂ ہندی اسے جمع کر سکتے ہیں جیسے نیک دل، پاک نفس، نیک نہاد کو نیک دلوں، پاک نفسوں، نیک نہادوں لکھنا جائز ہے۔

(بے) اور (نا) دونوں حرف نفی ہیں، جن اسما پر یہ دونوں آتے ہیں اُن پر ترکیب فارسی کا اثر قائم نہیں رہتا اس لیے کہ (بے اور نا) ہندی لفظوں پر بھی لگا لیے جاتے ہیں اور یہ حرف حکم ہندی کا رکھتے ہیں جیسے بے خود اور ناتواں۔ قاعدہ یہی چاہتا تھا کہ ایسی لفظوں کی جمع بقاعدۂ فارسی آتی اور بقاعدۂ ہندی نہ آتی مگر (بے اور نا) حکم ہندی کا رکھتے ہیں۔ کیونکہ اصل میں سنسکرت ہے اور یہ دونوں حرف اسمائے ہندی پر مستعمل ہیں جیسے بے باپ کا بچہ، ناسمجھ۔ اس لیے ایسی فارسی اور عربی لفظوں پر اُردو کا حکم جاری ہے جیسے بیخودوں اور ناتوانوں۔

قاعدہ: کوئی لفظ فارسی ہو، عربی ہو، اردو ہو، انگریزی ہو، مذکر ہو یا مؤنث جمع کی حالت میں جب ان پر حروف روابط کا، کو، سے، تک، میں، نے، کے، پر آئیں گے تو ان کی جمع ون سے آئے گی جیسے وہ میری نظروں سے پوشیدہ ہوگیا، ہاتھیوں پرامیر سوار تھے، باوفاؤں سے ذرا آنکھ ملاؤ تو سہی، پھر ہوئی چونے والیوں کی دھوم، امیروں کی سفارش اہل دنیا کو مبارک ہو، باغ کی نہروں میں پانی دو۔

ان مثالوں سے یہ معلوم ہوا کہ جس اسم کے بعد حرف ربط آئے گا تو اس کی جمع واؤ نون سے ضرور آئے گی۔ لیکن بعض اسما ایسے ہیں جن کی جمع واؤ نون سے بغیر حرف ربط ما بعد کے بھی آتی ہے اگر وہ اسم اسمِ ظرف ہو جیسے ‘تیغ کے گھاٹوں اتارا چاہیے’۔

یا اسم فاعل: دکھلا کے مانگ گیسوؤں والا نکل گیا۔

یا اسم ظرف زمان: برسوں خبر نہ لی، راتوں رات، مدتوں سفر میں رہا، گھنٹوں رویا کیا۔

یا اسم عدد: ساتوں پریاں گانے لگیں، پانچوں بھائی خوش خوش تھے۔

مذکر اسم کے آخر میں الف یا ہ ہے تو جمع کرتے وقت حرف آخر گرا دیا جائے گا جیسے اندھا سے اندھوں، گلدستہ سے گلدستوں۔ نِدا کی حالت میں جمع صرف واؤ سے آتی ہے دوستو، لڑکیو۔ وہ مذکر اسما جن کے آخر الف یا ہ ہے اور وہ یائے مجہول سے امالہ قبول کرتے ہیں اور ان کے ما بعد حرف ربط نہیں ہے تو جمع کی حالت میں بھی وہ یائےمجہول سے بدل دیے جائیں گے۔ سب کے سب انگوچھے لیے ہوئے گنگا گھاٹ پر اشنان کو آئے، میدان میں لڑکے کھیل رہے تھے۔ اس کے سوا اور کوئی قاعدہ مذکر اسما کے جمع کا نہیں ہے۔

قاعدہ: وہ اسما جن کے آخر میں الف یا ہ ہے اور وہ امالہ قبول نہیں کرتے اور وہ مذکر اسما جن کے آخر میں الف یا ہ نہیں ہے تو اردو میں ان کے لیے کوئی حرف جمع کا نہیں ہے، ان کا مفرد بجائے جمع مستعمل ہوگا لیکن جملے میں افعال سے ان کی جمع معلوم ہوگی۔ گاہک آتے جاتے تھے، دکاندار بیٹھے تھے، دریا بہتے تھے، ہولناک صحرا نظر آئے۔ گاہک اور دکاندار مفرد اسم ہے لیکن فعل جمع آیا ہے اس لیے کہ اسما بجائے جمع مستعمل ہوئے ہیں۔

ایک قاعدہ مذکر الفاظ کی جمع کا اور بھی ہے۔ یعنی اگر چاہیں تو عربی الفاظ کو بحالت مفرد بقاعدۂ عربی جمع کر کے لکھیں یا مفرد کو بحالت جمع استعمال کریں، دونوں صورتیں جائز ہیں۔ جیسے شریف منکسرمزاج ہوتے ہیں۔ اس کو اس طرح بھی بول سکتے ہیں کہ “شرفا منکسر مزاج ہوتے ہیں”۔ صاحب کمال نہیں چھپتے، ان کے وقت بند ھے ہوئے ہیں اس کو اس طرح بھی بول سکتے ہیں “ان کے اوقات بندھے ہوئے ہیں”۔

لیکن اگر لفظ مذکر مفرد فارسی ہے تو اُس کو مفرد بمعنی جمع استعمال کریں گے اس کو بقاعدۂ فارسی جمع کرکے بولنا جائز ہے۔ جیسے تمھارے دماغ نہیں ملتے، مہمان آرہے ہیں۔ ایک صورت اظہار جمع کی مذکر الفاظ کے لیے اور بھی ہےیعنی کچھ الفاظ مقرر ہیں جو جمع کا کام دیتے ہیں یہ اسم عدد ہیں۔ جیسے سب آدمی بیٹھے ہوئے کھانا کھا رہے تھے، چند سیب سامنے رکھے تھے، کچھ آم تراشے جاتے تھے، اکثر مہذب ہنسی کے مارے لوٹے جاتے تھے، بعض یار دوست کہتے ہیں۔ بعض مواقع پر ایسا ہوتا ہے کہ صرف اسم عدد سے اظہار جمع کر دیتے ہیں فعل نہیں بدلتے۔ دو چار آم لاؤ، دو ایک سیب کھاؤ۔

قاعدہ: بعض اسم مذکر ایسے ہیں جن کا واحد نہیں ہے، وہ ہمیشہ جمع بولے جاتے ہیں جیسے لوگ، مردم۔

قاعدہ: جس اسم مونث کے آخر میں (ی) ہے اس کی جمع الف نون سے آئے گی:

خاص بردار سب وضیع و شریف


وردیاں زیب تن عجیب و لطیف


چرخیاں اور انار داغ دیے، ہاتھ مَلواتی ہیں حوروں کو تمھاری چوڑیاں، طاقچوں میں ہیرے کی گلابیاں رکھی تھیں۔ اردو کا حاصل صفت جس کے آخر میں ی ہے اسی قاعدے سے جمع ہوتا ہے۔ جیسے بے قرار اسم صفت ہے، بے قراری حاصل صفت ہے۔ اس کی جمع بے قراریاں بولتے ہیں جیسے “وہ آکے دیکھتے ہیں بےقراریاں میری”۔ اسی طرح اور بھی حاصل صفت جیسے سختیاں، کمبختیاں، شوخیاں، بدمعاشیاں، مکاریاں۔

بعض اس قاعدے کے موافق اسم صفت ہندی کو جس میں آخر میں (ی) ہوتی ہے جمع کر لیتے ہیں جیسے گوریاں، سنہریاں، بھاریاں۔

بیڑیاں منت کی بھی پہنیں تو میں نے بھاریاں چاندنی راتیں یکایک ہوگئیں اندھیاریاں


قدما فعل مؤنث کوبھی اسی طرح جمع کر لیتے تھے، جیسے ڈالیاں بے شمار قطار قطار ہر طرف رکھیاں تھیں۔ یہ سب بین الفصحا ناجائز ہیں۔ اسم مؤنث کے آخر میں الف یا ہ ہے تو اس کی جمع (ئیں) سے آئے گی جیسے جفائیں، دوائیں، مائیں۔ خالہ سے خالائیں، قُطامہ سے قُطامائیں۔ لیکن جس کے آخر میں ی اور الف ہے اُس کی جمع صرف نون سے آئے گی۔ جیسے چڑیا، کتیا، لُٹیا، ڈلیا، گھوڑیا، بٹیا، بُڑھیا، گڑیا، پُڑیا، کُلھیا، اسے چڑیاں، کتیاں، لُٹیاں، ڈلیاں، گھوڑیاں، بٹیاں، بڑھیاں، گڑیاں، پڑیاں، کلھیاں۔

قاعدہ: جن مؤنث اسما کے آخر میں الف اور یا نہیں ہے ان کی جمع (ین)سے آئے گی جیسے پلٹیں صورتِ صفِ مژگاں، لالٹینیں ہزارہا روشن، کروٹیں بدلا کیا، سنہری رو پہلی چقیں، پردہ نشین عورتیں۔ لیکن عربی فارسی دو حرفی الفاظ کی جمع اس قاعدے سے نہیں آتی جیسے شے،مے،قے۔ اس کی جمع شیئیں، میئیں، قیئیں ناجائز ہے۔ فارسی قاعدے سے اردو میں مفرد الفاظ کو جمع کرنے کا دستور قدما میں بہت تھا مگر آج کل نہیں بولتے “رفتگاں کا بھی خیال اے اہل عالم چاہیے”، “رہ گزر میں دفن کرنا اے عزیزاں تم مجھے”، “اے کودکاں ابھی تو ہے فصل بہار دور”، “کیا نفاق انگیز ہمجنساں ہوائے دہر ہے”۔ لیکن فارسی اضافت اور عطف کے ساتھ بولنا جائز ہے جیسے سفر میں یارانِ وطن یاد آتے ہیں۔ بندگاں، سکندرشاں، داغِ عزیزاں۔

قاعدہ: جمع عربی کے مفرد الفاظ اردو میں مستعمل ہیں۔ شائقین، طالبین، عقائد، خیالات، معاصرین، اقربا، حکام، غربا، کتب۔ اسی طرح تثنیہ بھی مستعمل ہیں جیسے والدین، حسنین، تمھارے عقائد اچھے نہیں ہیں، ہمارے معاصرین کیا فرماتے ہیں، حکام کی دوستی اچھی نہیں، شائقین ملاحظہ فرمائیں، خیالات میں فرق آگیا، غربا کی پرورش لازم ہے۔بعض ناواقفی سے عربی کی جمع کو بقاعدۂ اردو جمع بناتے ہیں، یہ غلط ہے۔ شائقینوں کے لیے مفت ہے، حکاموں کی ملاقات کو جایا کرتا ہوں، اپنے خیالاتوں کو ظاہر کرتا ہوں، غرباؤں سے اُنس ہے۔ یہ سب غیر فصیح ہیں لیکن بعض عربی جمع کے الفاظ اردو میں بجائے واحد بولے جاتے ہیں ان کی جمع اردو جائز ہے جیسے اولاد سے اولادیں۔ بعض اردو الفاظ کو بقاعدۂ عربی جمع بنا لیتے ہیں جیسے بنگلہ جات، کھاتہ جات، کوٹھیات اور اسی طرح فارسی الفاظ کو بھی جیسے علاقہ جات،کارخانہ جات، یہ بھی ناجائز ہے؛ ان کو بنگلے، کوٹھیاں، علاقے، کارخانے لکھنا چاہیے۔

قاعدہ: کنواں اور دھواں کی جمع مذکورۂ بالا قاعدوں کے خلاف آتی ہے، کنوئیں اور دھوئیں؛ اسی طرح آنکھ کی جمع انکھڑیاں او ر درد اگرچہ مذکر ہے اس کی جمع دردیں مؤنث بولی جاتی ہے۔ اس کا استعمال دردزہ کے معنی پر مختص ہے۔