قواعد میر/مجاز استعارہ

مجاز استعارہ

edit

مجاز مرسل

edit

جو کلمہ لغوی معنی اور اصطلاحی معنی کے خلاف کسی غیر حقیقی معنی پر مستعمل ہو اُسے مجاز کہتے ہیں۔تعلق اور قرینہ سے معلوم کر سکتے ہیں کہ یہ لفظ اپنے معنی کے خلاف مستعمل ہوا ہے، جیسے کسی سخی کو کہیں تم حاتم ہو۔ حقیقت میں وہ حاتم نہیں ہے لیکن سخاوت اور فیاضی کے تعلق سے اُس کا نام حاتم رکھ دیا۔ کسی بہادر کو کہیں تم شیر ہو، تو حقیقت میں وہ درندہ جانور نہیں ہے مگر شجاعت کے قرائن اور تعلق سے اُسے عارضی شیر کہدیا۔ کسی بیوقوف آدمی کو کہیں تو گدھا ہے تو حقیقت میں وہ جانور نہیں ہے، حماقت کی وجہ سے جو اس کی ذات میں ہے اُسے گدھا کہدیا۔ یہ قرینہ اور علاقہ کبھی مشابہت کا ہوتا ہے جیسے اُس کے گال گلاب کے پھول ہیں۔ حقیقت میں گلاب کے پھول کے معنی گال کے کسی لغت اور اصطلاح میں نہیں ہیں مگر باعتبار تر و تازگی و بہ اعتبار رنگ ایک قرینہ گلاب کے پھول اور گال میں پیدا ہوگیا۔ یا کسی خوبصورت آدمی کو کہیں تم چاند ہو تو بہ اعتبار حُسن کے چاند کہا۔ اُس کی آنکھیں آم کی پھانکیں ہیں، یہ صورت معنی بہ اعتبار وضع اور قطع ہے۔

مجاز میں اگر کوئی تعلق تشبیہ کا ہے اور حرف تشبیہ نہیں ہے اُسے استعارہ کہتے ہیں، میرے گھر وہ شمع رو آیا تو خانۂ تاریک روشن ہوگیا۔

استعارہ اور تشبیہ میں فرق یہ ہے کہ استعارے میں حروف تشبیہ نہیں آتے۔ اگر تشبیہ میں حروف تشبیہ شامل ہوں تو اُسے استعارہ نہیں کہیں گے تشبیہ کہیں گے۔جیسے چاند سے رخسار ے، کٹورا سی آنکھیں استعارہ نہیں ہے تشبیہ ہے۔

کبھی یہ صورت ترکیب اضافی میں یعنی مضاف مضاف الیہ سے پیدا ہو تی ہے، اَبرو کی تلوار نے قتل کیا۔ اس حالت میں مضاف مجاز ہے یعنی تلوار، کیونکہ تلوا ر نے نہیں قتل کیا ہے بلکہ اَبرو نے۔

قاعدہ: حالت اضافی میں مجاز کی پہچان یہ ہے کہ اگر اس کو نکال ڈالیں جب بھی معنوں میں فرق نہ آئے۔ اس طرح بھی بول سکتے ہیں کہ ‘تمھارے اَبرو نے قتل کیا’ اور معنی میں بھی فرق نہیں آیا۔

قاعدہ: حالت اضافی میں مجاز ہمیشہ مضاف ہوتا ہے، مثال رشکؔ:

غلط ہے خانۂ ہستی محل عیش آزاداں

کہ بندِ غم سے خالی کون ہے دنیا کے گھر بھر میں


خانۂ ہستی، بند غم بترکیب اضافی مضاف مضاف الیہ ہیں، دونوں کے مضاف یعنی خانہ اور بند کو نکال ڈالو معنی میں فرق نہیں آئے گا۔ یوں کہو

ہستی محل عیش آزاداں نہیں ہے

غم سے خالی دنیا کے گھر بھر میں کون ہے


گلشن دہر میں ہوں نگہت گل


اس میں گلشن مجاز ہے، مطلب یہ ہے کہ دہر میں نگہت گل ہوں۔

اگر یہ علاقہ باعتبار تشبیہ نہو بلکہ باعتبار دیگر مفروضات ہو تو اس کو مجاز مرسل کہتے ہیں۔

مجاز مُرسل میں اکثر تعلق ذہنی ہوتا ہے جیسے مُہری بہتی ہے۔حقیقت میں مہری نہیں بہتی ہے بلکہ مہری سے پانی بہتا ہے۔ پر نالہ چلتا ہے، حقیقت میں پرنالہ نہیں چلتا بلکہ پرنالے سے پانی بہتا ہے۔ اناج برستا ہے یعنی فصل کے موقع پر پانی برستا ہے۔ اسی طرح ناک بہتی ہے، آگ برستی ہے، چھت ٹپکتی ہے۔ یہ سب مجاز مرسل ہیں۔

ترکیب اضافی میں بھی مجاز مرسل آتا ہے جیسے خیال کی آنکھ سے دیکھو، اس جملے کے کہنے والے نے اپنے دل میں خیال کو ایک آدمی فرض کر کے اُس کی آنکھ تجویز کی۔ حالانکہ خیال کی آنکھ حقیقت میں نہیں ہے، محض خیال کو آدمی سے نسبت دی ہے۔ “گلشن عالم میں طرح طرح کے پھول کھلتے ہیں”، عالم کو باغ فرض کر کے گلشن عالم کہا۔ اس میں سے مضاف کو نکال ڈالو اور یوں کہو، خیال سے دیکھو جب بھی معنی صحیح رہتے ہیں۔ گلشن کو نکال ڈالو اور یوں کہو، عالم میں طرح طرح کے پھول کھلتے ہیں، تو بھی جملہ میں فرق نہیں آتا۔

مجاز مرسل بترکیب اضافی اکثر نظم میں آتا ہے، سحرؔ:

پائے نظر اُلجھتے ہیں ہر بار ہاتھ میں


ایضاً

دو ہی قدم میں وادئ الفت کو طے کیا

دریائے غم کے پار ہوا چار ہاتھ میں


مثال اردو اضافت کی ؎

گانا سُنا کے ہم کو بیہوش کر دیا ہے

شیشے کے بھی گلے میں ساقی یہ لے نہیں ہے


اس سے یہ معلوم ہوا کہ مجاز کی دو صورتیں ہیں استعارہ، مجاز مرسل۔ استعارۂ غیر اضافی کی مثال : پونڈے نہیں ہیں مٹھائیاں ہیں۔ یعنی مٹھائیاں کا لفظ مستعار ہے اور وجہ شبہ باعتبار مٹھاس پائی جاتی ہے۔ حرف تشبیہ اس میں نہیں ہے اس لیے اس کو استعارۂ غیر اضافی کہیں گے کیونکہ کوئی اضافت بھی واقع نہیں ہوئی۔

کبھی استعارہ زیادہ لطیف الفاظ میں ادا کیا جاتا ہے جیسے ایک گنّے والا کہتا ہے، میاں کنکوے کون لوٹے گا۔ ظاہر ہے کہ گنے سے کنکوے نہیں لوٹتے ہیں بلکہ ہندوستان میں طویل بانس سے کنکوے لوٹتے ہیں اس لحاظ سے کہ گنے بہت بڑے ہیں گویا بانس کے برابر ہیں اور کنکوے لوٹنے کے قابل ہیں۔ گنے کو بانس سے تشبیہ ذہنی دے کر کہا۔ اس کو استعارۂ لطیف کہتے ہیں کیونکہ گنے اور بانس میں وجہ شبہ بہ اعتبار طویل موجود ہے۔

“شبنم کا قطرہ موتی ہے” موتی اور قطرے میں تشبیہ کامل ہے، حرف تشبیہ نہیں ہے۔ اس لیے استعارہ غیر اضافی ہے۔

صیاد ظلمت نے زاغ شب کے شکار کو دانۂ انجم دامگاہ سپہر پر بچھائے۔ اس میں صیاد ظلمت، زاغ شب، دام گاہ سپہر بترکیب اضافی مجاز مرسل ہیں۔ دانۂ انجم میں تشبیہ موجود ہ ہے اس لیے استعارہ اضافی ہے۔ اب ان سب کے مضاف نکال ڈالو، معنوں میں فرق نہ آئے گا جیسے ظلمت نے شب کو انجم سپہر پر بچھائے۔

نگہ کے تیر سے زخمی کیا دل


نگہ کو تیر سے تشبیہ ہے اس لیے استعارہ بترکیب اضافی اردو ہے۔

آج کل دریا بہت رواں ہے۔ یہاں دریا کا لفظ مجاز مرسل ہے کیونکہ دریا پانی کے معنی پر مستعمل ہواہے۔

اس کے کان نہیں ہیں یعنی بہرا ہے۔ یہاں کان کے معنی قوت سماعت کے لیے ہیں اس لیے کان مجاز مرسل ہیں۔

تصور گیسوئے شبگوں کا آیا شکر کرتا ہوں سیہ پوشاک تھی درکار میرے کعبۂ دل کو


دل کو کعبہ کہنا مجاز مرسل ہے اس لیے کہ کعبہ سے دل کو کوئی نسبت باعتبار شبہ نہیں ہے۔ اس لیے کعبہ کا لفظ یہاں مجاز مرسل ہے۔

کوشش کرتے کرتے ہمت کے پاؤں ٹوٹ گئے۔ یہاں پاؤں کا لفظ مجاز مرسل ہے اس لیے کہ ہمت کو آدمی فرض کر کے اس کے پاؤں بنا لیے۔