297694قوس قزحاسماعیل میرٹھی

تھی شام قریب اور دہقاں
میداں میں تھا گلے کا نگہباں
دیکھی اس نے کمان ناگاہ
جو کرتی ہے مینہ سے ہم کو آگاہ
رنگت میں اسے عجیب پایا
ظاہر میں بہت قریب پایا
پہلے سے وہ سن چکا تھا اکثر
ہے قوس میں اک پیالۂ زر
مشہور بہت ہے یہ کہانی
افسانہ تراش کی زبانی
ملتی ہے جہاں کماں زمیں سے
ملتا ہے وہ جام زر وہیں سے
سوچا لو جام اور بنو جم
چھوڑو بزو گو سفند کا غم
بیہودہ گنوار اس گماں پر
سیدھا گیا تیر سا کماں پر
دن گھٹنے لگا قدم بڑھایا
امید کہ اب خزانہ پایا
جتنی کوشش زیادہ تر کی
اتنی ہی کماں پرے کو سرکی
پنہاں ہوئی قوس آخر کار
اور ظلمت شب ہوئی نمودار
ناکام پھر وہ سادہ دہقاں
حسرت زدہ غم زدہ پشیماں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.