قوس قزح
تھی شام قریب اور دہقاں
میداں میں تھا گلے کا نگہباں
دیکھی اس نے کمان ناگاہ
جو کرتی ہے مینہ سے ہم کو آگاہ
رنگت میں اسے عجیب پایا
ظاہر میں بہت قریب پایا
پہلے سے وہ سن چکا تھا اکثر
ہے قوس میں اک پیالۂ زر
مشہور بہت ہے یہ کہانی
افسانہ تراش کی زبانی
ملتی ہے جہاں کماں زمیں سے
ملتا ہے وہ جام زر وہیں سے
سوچا لو جام اور بنو جم
چھوڑو بزو گو سفند کا غم
بیہودہ گنوار اس گماں پر
سیدھا گیا تیر سا کماں پر
دن گھٹنے لگا قدم بڑھایا
امید کہ اب خزانہ پایا
جتنی کوشش زیادہ تر کی
اتنی ہی کماں پرے کو سرکی
پنہاں ہوئی قوس آخر کار
اور ظلمت شب ہوئی نمودار
ناکام پھر وہ سادہ دہقاں
حسرت زدہ غم زدہ پشیماں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |