قول تیرا شوق میرا چاہیئے
قول تیرا شوق میرا چاہیئے
جھوٹ سچ کے واسطے کیا چاہیئے
ہو سکے کیا اپنی وحشت کا علاج
تیرے کوچے میں بھی صحرا چاہیئے
گو تری نظروں سے کل گر ہی پڑیں
آج تو کوئی سہارا چاہیئے
ہر طرف ہے تیرے بیماروں کا شور
ہر گلی میں اک مسیحا چاہیئے
کیوں نہ چھائے مے کشوں کے سر پر ابر
کچھ گنہ گاروں کا پردہ چاہیئے
کاش دے کر کچھ گرہ سے ہو نجات
تجھ کو زاہد دین و دنیا چاہیئے
کیوں نہیں دیتے تسلی داغؔ کو
اس سے لیجے گر تمنا چاہیئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |