قید سے پہلے بھی آزادی مری خطرے میں تھی
قید سے پہلے بھی آزادی مری خطرے میں تھی
آشیانہ ہی مرا صورت نمائے دام تھا
واہمہ خلاق اور آزادی حسن افزا سرور
ہر فریب رنگ کا پہلے گلستاں نام تھا
ضعف آہوں پر بھی غالب ہو چلا تھا اے اجل
تو نہ آتی تو یہ میرا آخری پیغام تھا
دیدۂ خوننابہ افشاں میرا ان کے سامنے
بے خودی کے ہاتھ سے چھوٹا ہوا اک جام تھا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |