لازم ہے سوز عشق کا شعلہ عیاں نہ ہو

لازم ہے سوز عشق کا شعلہ عیاں نہ ہو
by رجب علی بیگ سرور

لازم ہے سوز عشق کا شعلہ عیاں نہ ہو
جل بجھیے اس طرح سے کہ مطلق دھواں نہ ہو

زخم جگر کا وا کسی صورت وہاں نہ ہو
پیکان یار اس میں جو شکل زباں نہ ہو

اللہ رے بے حسی کہ جو دریا میں غرق ہوں
تالاب کی طرح کبھی پانی رواں نہ ہو

گل خندہ زن ہے چہچہے کرتی ہے عندلیب
پھیلی ہوئی چمن میں کہیں زعفراں نہ ہو

بھاگو یہاں سے یہ دل نالاں کی ہے صدا
بہکے ہو یارو یہ جرس کارواں نہ ہو

ہستی عدم سے ہے مری وحشت کی اک شلنگ
اے زلف یار پانو کی تو بیڑیاں نہ ہو

لینا بہ جاے فاتحہ تربت پہ نام یار
مرنے پہ یہ خیال ہے وہ بدگماں نہ ہو

ناقہ چلا ہے نجد میں لیلیٰ کا بے مہار
مجنوں کی بن پڑے گی اگر سارباں نہ ہو

چالوں سے چرخ کی یہ مرا عزم ہے سرورؔ
اس سر زمیں پہ جاؤں جہاں آسماں نہ ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse