لالہ رو تم غیر کے پالے پڑے

لالہ رو تم غیر کے پالے پڑے
by ولی اللہ محب

لالہ رو تم غیر کے پالے پڑے
دیکھنے کے ہیں ہمیں لالے پڑے

جب نظر سرمے کے دنبالے پڑے
دل کے پیچھے تیر اور بھالے پڑے

اس برس فرقت میں تیرے اشک کے
چشم سے بہتے ہیں پرنالے پڑے

ہم ہوائے وصل میں یاں تک پھرے
جو ہوس کے پاؤں میں چھالے پڑے

عارض اس کے پر نہیں زلف سیاہ
گنج پر سوتے ہیں دو کالے پڑے

آہ اور نالے کے گرداگرد دل
پھرتے ہیں راتوں کو رکھوالے پڑے

کیا نزاکت ہے کہ بوسہ لیتے ہی
ہونٹ پر اس گل کے تب خالے پڑے

آنکھیں اس خوں خار سے پھر جا لڑیں
زخم دل کے ہیں ابھی آلے پڑے

عشق کے ہاتھوں سے جوں فرہاد و قیس
کیا کہیں کس کس کے گھر گھالے پڑے

عاشق اس کی مست آنکھوں کے مدام
پھرتے ہیں بے ہوش متوالے پڑے

شیخ تم فی الحال در بزم سماع
بد اصولی سے ہو بے تالے پڑے

اپنے گھر میں شیخ اندھیری رات میں
ہاتھ جو آوے اسے جا لے پڑے

کھولے یہ شیشوں کے منہ ساقی نے آج
بزم میں ترتے ہیں کیا پیالے پڑے

اڑتے پھرتے ہیں زمیں پر شکل ابر
پرچہ پرچہ روئی کے گالے پڑے

در پر اس گل کے محبؔ تم سے ہزار
پھرتے ہیں دل بیچنے والے پڑے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse