لاکھ دل مست ہو مستی کا عیاں راز نہ ہو
لاکھ دل مست ہو مستی کا عیاں راز نہ ہو
یہ وہ شیشہ ہے کہ ٹوٹے بھی تو آواز نہ ہو
خوف ہے موسم گل میں کہ صبا کا جھونکا
طائر ہوش کے حق میں پر پرواز نہ ہو
دل بہت بلبل شیدا کا ہے نازک گلچیں
پھول گل زار کے یوں توڑ کہ آواز نہ ہو
کیا قیامت ہے وہ دل توڑ رہے ہیں میرا
اس گماں پر کہ چھپا اس میں کوئی راز نہ ہو
آئینہ ہاتھ میں ہے حسن کا نظارہ ہے
ان سے کہہ دو مری حالت نظر انداز نہ ہو
ہو کے وہ مست مئے ناز گلے لپٹے ہیں
ہوش کمبخت کہیں تفرقہ پرداز نہ ہو
اس گرفتار کی پوچھو نہ تڑپ جس کے لیے
در قفس کا ہو کھلا طاقت پرواز نہ ہو
اہل دل کو جو لٹاتی ہے صدا نغمے کی
پردۂ ساز میں پنہاں تری آواز نہ ہو
تھام لینے دو کلیجہ مجھے ہاتھوں سے جلیلؔ
قصۂ درد جگر کا ابھی آغاز نہ ہو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |