لاکھ لاکھ احسان جس نے درد پیدا کر دیا
لاکھ لاکھ احسان جس نے درد پیدا کر دیا
جس نے اس دل کو ہتھیلی کا پھپھولا کر دیا
دیکھنا مغرب کی جانب یہ شفق کا پھولنا
ڈوبتے سورج نے سونے میں سہاگا کر دیا
زندگی اور موت میں اک عمر سے تھی کشمکش
وقت پر دو ہچکیوں نے پاک جھگڑا کر دیا
اک شرارہ سا قریب شمع جا کر مل گیا
آتش پروانہ نے شعلے کو دونا کر دیا
بلبل تصویر ہوں اب بولنا ہے ناگوار
تیری اس ہنگامہ آرائی نے چپکا کر دیا
اس کو کہتے ہیں لگی پروانے جل بجھ ڈوب مر
روتے روتے شمع نے آخر سویرا کر دیا
دے دیا آنکھیں لڑا کر اس پری پیکر نے جام
میں نشے میں چور تھا ہی اور اندھا کر دیا
کیا گرامی ہستیاں ہیں حضرت عثمانؔ و شادؔ
شاعرؔ ان دونوں نے دنیا میں اجالا کر دیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |