لب پر جو مرے آہ غم آلود نہیں ہے
لب پر جو مرے آہ غم آلود نہیں ہے
اظہار محبت مجھے مقصود نہیں ہے
ہم جیسے فقیروں کو تو یوں بھی نہ کہے وہ
پھر آئیو کچھ اس گھڑی موجود نہیں ہے
کہتا ہوں میں یہ گبر و مسلمان کے منہ پر
وہ عبد نہیں جس کا تو معبود نہیں ہے
نرمائے ہے کس طرح سے اس آہن دل کو
یہ آہ اگر نغمۂ داؤد یہیں ہے
پھرتے ہیں کئی قیس سے حیران و پریشان
اس عشق کی سرکار میں بہبود نہیں ہے
تاثیر مدد کیجیو اب سینے میں اپنے
اس نالے سے اک آہ بھی افزود نہیں ہے
خوبیٔ ایاز آپھی نظر آ گئی ہوتی
افسوس ترے عہد میں محمود نہیں ہے
اس آتش فرقت کے سوا دہر میں ؔجوشش
دیکھا تو کہیں آتش بے دود نہیں ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |