لخت جگر کو کیونکر مژگان تر سنبھالے

لخت جگر کو کیونکر مژگان تر سنبھالے
by حیدر علی آتش
294792لخت جگر کو کیونکر مژگان تر سنبھالےحیدر علی آتش

لخت جگر کو کیونکر مژگان تر سنبھالے
یہ شاخ وہ نہیں جو بار ثمر سنبھالے

دیوانہ ہو کے کوئی پھاڑا کرے گریباں
ممکن نہیں کہ دامن وہ بے خبر سنبھالے

تلوار کھینچ کر وہ خوں خوار ہے یہ کہتا
منہ پر جو کھاتے ڈرتا ہو وہ سپر سنبھالے

تکیے میں آدمی کو لازم کفن ہے رکھنا
بیٹھا رہے مسافر رخت سفر سنبھالے

یک دم نہ نبھنے دیتی ان کی تنک مزاجی
رکھتے نہ ہم طبیعت اپنی اگر سنبھالے

وہ نخل خشک ہوں میں اس گلشن جہاں میں
پھرتا ہے باغباں بھی مجھ پر تبر سنبھالے

ہر گام پر خوشی سے وارفتگی سی ہوگی
لانا جواب خط کو اے نامہ بر سنبھالے

یا پھر کتر پر اس کے صیاد یا چھری پھیر
بے بال و پر نے تیرے پھر بال و پر سنبھالے

درد فراق آتشؔ تڑپا رہا ہے ہم کو
اک ہاتھ دل سنبھالے ہے اک جگر سنبھالے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse