لرزتا دیپ

لرزتا دیپ
by شکیب جلالی
330818لرزتا دیپشکیب جلالی

دور شب کا سرد ہات
آسماں کے خیمۂ زنگار کی
آخری قندیل گل کرنے بڑھا
اور کومل چاندنی
ایک در بستہ گھروندے سے پرے
مضمحل پیڑوں پہ گر کر بجھ گئی

بے نشاں سائے کی دھیمی چاپ پر
اونگتے رستے کے ہر ذرے نے پل بھر کے لیے
اپنی پلکوں کی بجھی درزوں سے جھانکا
اور آنکھیں موند لیں

اس سمے طاق شکستہ پر لرزتے دیپ سے
میں نے پوچھا
ہم نفس
اب ترے بجھنے میں کتنی دیر ہے؟


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.