لطف ظاہر کر دیا درد نہانی دیکھ کر
لطف ظاہر کر دیا درد نہانی دیکھ کر
رحم نے پائی ہے قوت ناتوانی دیکھ کر
جو کہ ملتی ہو ہماری سرگزشت عشق سے
قصہ خواں کہنا وہاں ایسی کہانی دیکھ کر
تجھ سے گو ملتے نہیں داغ غم ہجراں تو ہے
شکر ہے جیتے تو ہیں تیری نشانی دیکھ کر
کون ہے خون جگر آشام میں یا مدعی
دیجیو ساقی شراب ارغوانی دیکھ کر
اب بلائے آسمانی بھی بھلی لگنے لگی
آپ کے سر پر دوپٹے آسمانی دیکھ کر
اس رمیدہ وش کو کیا حال دل محزوں لکھوں
جو خفا ہو ربط الفاظ و معانی دیکھ کر
ہے دگر گوں ابتدائے عشق میں رشکیؔ کا حال
رحم آتا ہے مجھے اوس کی جوانی دیکھ کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |