لو نہ ہنس ہنس کے تم اغیار سے گل دستوں سے

لو نہ ہنس ہنس کے تم اغیار سے گل دستوں سے
by نظیر اکبر آبادی

لو نہ ہنس ہنس کے تم اغیار سے گل دستوں سے
اتنی ضد بھی نہ رکھو اپنے جگر خستوں سے

فندقیں بزم میں دیکھ اس کے سر انگشتوں سے
رشتۂ ربط نے لی راہ کف دستوں سے

روبرو ہووے جو چشمان بتاں سے اے دل
ڈرتے رہنا ہی مناسب ہے سیہ مستوں سے

دست صیاد سے چھوٹے تو اچھل پے در پے
ورنہ کیا فائدہ اے آہوے دل جستوں سے

پیش جاتی نہیں ہرگز کوئی تدبیر نظیرؔ
کام جب آن کے پڑتا ہے زبردستوں سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse