لڑکپن میں یہ ضد ہے جانی تمہاری
لڑکپن میں یہ ضد ہے جانی تمہاری
ابھی دیکھنی ہے جوانی تمہاری
کہا میں نے ٹھہرو تو بولے یہ ہنس کر
کبھی پھر سنیں گے کہانی تمہاری
نثار ان کے جائیں جو سچ جانے اس کو
فسانہ ہمارا زبانی تمہاری
بڑی خدمتیں کیں اب آزاد کر دو
بہت دیکھ لی مہربانی تمہاری
چھپاؤں نہ کس طرح سے جاں بدن میں
مری جان یہ ہے نشانی تمہاری
بہت صاف ہیں گالیاں واہ وا ہے
سنی بارہا خوش بیانی تمہاری
مقرر بلا آنے والی ہے کوئی
نہیں بے سبب مہربانی تمہاری
نسیمؔ اب تو گھبرا گیا دل ہمارا
سنے کون پہروں کہانی تمہاری
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |