لکھ دے عامل کوئی ایسا تعویذ
لکھ دے عامل کوئی ایسا تعویذ
یار ہو جائے گلے کا تعویذ
کب مسخر یہ حسیں ہوتے ہیں
سب یہ بیکار ہے گنڈا تعویذ
نہ ہوا یار کا غصہ ٹھنڈا
بارہا دھو کے پلایا تعویذ
سر سے گیسو کی بلا جاتی ہے
لائے تو رد بلا کا تعویذ
مر کے بھی دل کی تڑپ اتنی ہے
شق ہوا میری لحد کا تعویذ
ہر طرح ہوتی ہے مایوسی جب
لوگ کرتے ہیں دعا یا تعویذ
آرزو خاک میں دشمن کی ملے
اس لیے دفن کیا تھا تعویذ
ہاتھ سے اپنے جو لکھا اس نے
ہم نے اس خط کو بنایا تعویذ
جس سے آیا ہوا دل رک جائے
کوئی ایسا بھی ہے لٹکا تعویذ
دل پسیجا نہ کسی دن ان کا
روز لکھ لکھ کے جلایا تعویذ
کام لو جذب محبت سے حفیظؔ
نقش کیا چیز ہے کیسا تعویذ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |