لگائے بیٹھے ہیں مہندی جو میرے خوں سے پوروں میں

لگائے بیٹھے ہیں مہندی جو میرے خوں سے پوروں میں
by عاشق اکبرآبادی

لگائے بیٹھے ہیں مہندی جو میرے خوں سے پوروں میں
یہی تو رہزنوں میں ہیں یہی ہیں دل کے چوروں میں

پڑے رہتے ہیں اکثر سوئے مشکیں روئے جاناں پر
بہت دیکھا ہے ہم نے اتفاق ان کالے گوروں میں

لگائی آگ ان کے حسن عالم سوز نے ہر سو
جلانے چو لکھا بیٹھے ہیں یوں کورے سکوروں میں

وفور صحبت اغیار سے کچھ ایسے کھل کھیلے
نہ وہ جھیپیں ہزاروں میں نہ شرمائیں کروروں میں

ہمیں کوئے بتاں سے دو قدم اٹھنے نہیں دیتی
ہماری ناتوانی ان دنوں ہے ایسے زوروں میں

اماں دیتا نہیں وہ چاہنے والوں کو مر کر بھی
ہمارے نام کو ظالم نے پٹوایا ڈھنڈوروں میں

مرے نالوں کا عاشقؔ رنگ اڑایا عندلیبوں نے
خرام یار کی شہرت ہوئی سارے چکوروں میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse