لگا جب عکس ابرو دیکھنے دل دار پانی میں
لگا جب عکس ابرو دیکھنے دل دار پانی میں
بہم ہر موج سے چلنے لگی تلوار پانی میں
نہانا مت تو اے رشک پری زنہار پانی میں
حباب ایسا نہ ہو شیشہ بنے اک بار پانی میں
سنا اے بحر خوبی تیری اٹھکھیلی سے چلنے کی
اڑائی رفتہ رفتہ موج نے رفتار پانی میں
جھلک اس تیرے کفش پشت ماہی کی اگر دیکھے
کرے قالب تہی ماہی بھی پھر لاچار پانی میں
نہیں لخت جگر یہ چشم میں پھرتے کہ مردم نے
چراغ اب کر کے روشن چھوڑے ہیں دو چار پانی میں
لب دریا پہ دیکھ آ کر تماشا آج ہولی کا
بھنور کالے کے دف باجے ہے موج اے یار پانی میں
کہوں کیا ساتھ غیروں کے تو اس بے دید نے ہمدم
نہانے کے لیے ہرگز نہ کی تکرار پانی میں
کہا میں نے جو اتنا رکھ قدم اس دیدۂ تر پر
لگا کہنے کہ آتی ہے مری پیزار پانی میں
نصیرؔ آساں نہیں یہ بات پانی سخت مشکل ہے
اٹھائی ریختے کی تو نے کیا دیوار پانی میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |