لگے خدنگ جب اس نالۂ سحر کا سا

لگے خدنگ جب اس نالۂ سحر کا سا
by مومن خان مومن

لگے خدنگ جب اس نالۂ سحر کا سا
فلک کا حال نہ ہو کیا مرے جگر کا سا

نہ جاؤں گا کبھی جنت میں میں نہ جاؤں گا
اگر نہ ہووے گا نقشہ تمہارے گھر کا سا

کرے نہ خانہ خرابی تری ندامت جور
کہ آب شرم میں ہے جوش چشم تر کا سا

یہ جوش یاس تو دیکھو کہ اپنے قتل کے وقت
دعائے وصل نہ کی وقت تھا اثر کا سا

لگے ان آنکھوں سے ہر وقت اے دل صد چاک
ترا نہ رتبہ ہوا کیوں شگاف در کا سا

ذرا ہو گرمی صحبت تو خاک کر دے چرخ
مرا سرور ہے گل خندۂ شرر کا سا

یہ ناتواں ہوں کہ ہوں اور نظر نہیں آتا
مرا بھی حال ہوا تیری ہی کمر کا سا

جنون کے جوش سے بیگانہ وار ہیں احباب
ہمارا حال وطن میں ہوا سفر کا سا

خبر نہیں کہ اسے کیا ہوا پر اس در پر
نشان پا نظر آتا ہے نامہ بر کا سا

دل ایسے شوخ کو مومنؔ نے دے دیا کہ وہ ہے
محب حسین کا اور دل رکھے شمر کا سا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse