لگ رہی جس طرح لالہ کے سارے بن کو آگ
لگ رہی جس طرح لالہ کے سارے بن کو آگ
دل کو اپنے داغ دیو اے عاشقو اور تن کو آگ
گل پہ یہ شبنم نہیں پانی چھڑکتی ہے بہار
ہائے رے کنے لگائی آ کے اس گلشن کو آگ
ہم سیہ بختوں کا کیوں کر رائیگاں جاوے وبال
شام نیں پھولی یہ لاگی ہے فلک کے تن کو آگ
چل یقیںؔ کی بات پر اے عشقؔ ہم بھی جل مریں
کیا ہی پھولا ہے پلاس اور لگ رہی ہے بن کو آگ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |