لیتا ہے جان میری تو میں سر بدست ہوں

لیتا ہے جان میری تو میں سر بدست ہوں
by نظیر اکبر آبادی

لیتا ہے جان میری تو میں سر بدست ہوں
اے یار میں تو کشتۂ روز الست ہوں

اک دم کی زندگی کے لیے مت اٹھا مجھے
اے بے خبر میں نقش زمیں کی نشست ہوں

تو مست کر شراب سے اے گل بدن مجھے
ظالم میں تیری چشم گلابی سے مست ہوں

دور از طریق مجھ کو سمجھیو نہ زاہدا
گر تو خدا پرست ہے میں بت پرست ہوں

ان سنگ دل بتوں کا گلہ کیا کروں نظیرؔ
میں آپ اپنے شیشۂ دل کی شکست ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse