لیچیاں، آلوچے اور الائچیاں
’’آپ کا اسم گرامی؟‘‘
’’خاکسار کو آلوچہ چیچا وطنی کہتے ہیں۔‘‘
’’فرمایئے!‘‘
’’یہ میرے مکرم دوست۔۔۔ مسٹر آلو بخارا ہیں۔‘‘
’’ارشاد؟‘‘
’’ہمیں بیگم خوبانی صاحبہ سے شرف ملاقات حاصل کرنا ہے۔‘‘
’’میں ابھی اطلاع کرتی ہوں۔‘‘
’’دیکھئے، ان کے وقت میں حرج نہ ہو۔ ہماری طرف سے اتنا عرض کر دیجئے گا کہ ہم ایک صدارت کے سلسلے میں آئے ہیں۔‘‘
’’یہ کس کا شعر ہے۔۔۔ سلسلہ ہائے۔۔۔ کیا دراز۔‘‘
’’اس کو بکنے دیجئے۔‘‘
’’دیکھو بھائی آلوچے، ان سے پوچھو، یہ کون صاحب زادی ہیں۔‘‘
’’اماں، تم بھی نرے کھرے چغد ہو۔۔۔ شکل صورت سے معلوم نہیں ہوتا کہ کسی صاحب علم وفن کی زادی ہیں۔‘‘
’’جی، میں بیگم خوبانی کی لڑکی ہوں۔‘‘
’’ماشاء اللہ، ماشا اللہ!‘‘
’’چشم بددور۔‘‘
’’ٹھہریئے، ہمارا نوکر گٹھلی آ گیا ہے۔۔۔ دیکھو گٹھلی۔۔۔ بیگم صاحبہ سے پوچھو، کیا وہ ایک صدارت فرما سکتی ہیں؟‘‘
’’ایک نہیں تین فرما سکتی ہیں، تم جانتی نہیں ہو بیٹا وہ ہر مہینے پانچ صدارتیں، چھ دعوتیں اور دو بجھارتیں فرمایا کرتی ہیں۔‘‘
’’تو دیکھئے، آپ کا اسم گرامی؟‘‘
’’آلوچہ چیچا وطنی!‘‘
’’اور آپ؟‘‘
’’خاکسار آلو بخارا ہے۔‘‘
’’تو بیگم خوبانی، جو صدارتیں آپ ان کے ذمے سپرد فرمائیں گے قبول کر لیں گی۔‘‘
’’زہے عزو شرف۔‘‘
’’باعث خوشنودی ما۔‘‘
’’بھئی وہ کل مشاعرہ ہو رہا ہے؟‘‘
’’مشاعرے ہوتے رہتے ہیں۔‘‘
’’صدارت کون کر رہا ہے؟‘‘
’’بیگم خوبانی صاحبہ۔‘‘
’’تو بات ہوئی نا؟‘‘
’’لطف آ جائے گا انناس کی قسم۔‘‘
’’یہ حضرت انناس بھی تشریف لائیں گے؟‘‘
’’بیگم خوبانی نے خود ان کو دعوت دی ہے۔‘‘
’’لیکن بھئی ہم نے تو یہ سنا تھا کہ وہ تشریف نہیں لائیں گے کیونکہ حضرت نوسہری بھی آنے والے ہیں۔‘‘
’’میاں نوسہری میں کیا مزا، جو انناس میں ہے۔ ان کے کلام میں جو فرحت انگیز رس ہے وہ نوسہری صاحب میں کہاں۔‘‘
’’انہیں کسی بہانے ٹال دیا گیا ہے۔‘‘
’’کسے؟‘‘
’’حضرت نوسہری کو۔‘‘
’’کیا کہہ کر؟‘‘
’’کہ موسم برسات میں آپ کو مدعو کیا جائے گا۔‘‘
’’بھئی کیا کہنے ہیں بیگم خوبانی کے۔۔۔ خدا کی قسم وہ۔۔۔ کیا کہتے ہیں اسے۔۔۔ فرارہ۔۔۔ یا قرارہ، ہاں غرارہ۔‘‘
’’بڑی نیک بخت عورت ہیں۔‘‘
’’بڑی غریب پرور۔‘‘
’’بڑی ادب شناس!‘‘
’’اور خود بڑی پُرگو۔‘‘
’’کیا شک ہے اس میں۔‘‘
’’ہاں بھئی وہ حضرت کیلا کورا کوری بھی آئیں گے؟‘‘
’’ضرور تشریف لائیں گے۔‘‘
’’اور وہ مس رس بھری؟‘‘
’’بھئی ان کے متعلق وثوق سے کسی کوبھی معلوم نہیں۔‘‘
’’اور مس ناشپاتی؟‘‘
’’کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ البتہ بگوگوشہ سری نگری ضرور آ رہے ہیں۔‘‘
’’پھر تو مزا آ جائے گا۔‘‘
’’بڑے مرنجاں مرنج۔‘‘
’’نہیں یار۔۔۔ بڑے فردوس گر روئے زمیں است و ہمیں است ہمیں است ٹائپ کے آدمی ہیں۔‘‘
’’بیگم خوبانی صاحبہ بھی اپنا تازہ کلام سنائیں گی؟‘‘
’’سنا ہے کہ ان کا گلا خراب ہے‘‘
’’یہ کون بولا؟‘‘
’’اس کا اصل نام کیا ہے؟‘‘
’’ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا۔‘‘
’’سنا ہے انگور تخلص کرتے ہیں۔‘‘
’’اور بوتلوں کا بیوپار کرتے ہیں۔‘‘
’’ہاں صاحب انگور کو بوتل سے نسبت تو ہے۔‘‘
’’اور بوتل کو اس دنیا سے جو خود بہت بڑی بوتل ہے جس کا کوئی کاک ہے نہ پیندا۔ جس پر کوئی چھاپ نہیں وہ دُخت ِ رز بھی ہے۔ تاڑی بھی، سیندھی بھی، بیوڑا بھی ہے، مو سمی بھی، زمزم بھی ہے اور سادہ پانی بھی۔‘‘
’’ہائے کیا چیز تھی جوانی بھی۔‘‘
’’چلئے صاحبان مشاعرے کا وقت ہو رہا ہے۔‘‘
’’حضرات ٹکٹ دکھایئے، ٹکٹ دکھا کر اندر تشریف لے جائیے۔‘‘
’’یہ بھی کوئی سرکس ہے۔‘‘
’’حضرات یہ دھکم پیل ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
’’حضرات! خواتین پہلے۔‘‘
’’خواتین پہلے کیوں؟ حضرت آدم پہلے پیدا ہوئے تھے۔‘‘
’’اماں حوا بعد میں۔۔۔ اور وہ بھی ان کی پسلیاں چیر کر۔‘‘
’’ہو ہو۔۔۔ ہا ہا۔‘‘
’’حضرات! آہستہ آہستہ۔‘‘
’’واہ۔۔۔ آہستہ برگ گل بفشاں بر مزار ما۔‘‘
’’حضرت! شعر ہال میں جا کر پڑھیئے گا۔‘‘
’’نالہ پابند نے نہیں ہے۔‘‘
’’کیا بات کرتے ہیں آپ۔۔۔ یہ بھی کوئی عاشق کا دل ہے۔‘‘
’’ہٹ جاؤ! کسی بیگم صاحبہ کی سواری آ رہی ہے۔‘‘
’’دو رویہ کھڑے ہو جاؤ۔‘‘
’’اور خوب روؤ۔‘‘
’’چلی گئیں اندر۔ اللہ کا شکر ہے، غرارے سے پاؤں الجھا اور گرتے گرتے بال بال بچیں۔‘‘
’’بال ان کے سر پر تھے، لٹ الجھی بام میں سلجھاجا۔‘‘
’’صاحبان آپ کو کچھ تمیز کرنی چا ہیئے۔۔۔ آپ شریف آدمی ہیں۔‘‘
’’اور یہ جو مشاعرہ ہو رہا ہے، معاشرہ شریف یا مشاعرہ شریف؟‘‘
’’اور یارو، گیٹ پر کسی اور کو بھیج دو، میں تو دم گھٹ کر مر جاؤں گا۔‘‘
’’حضرت صیاد کی یہی مرضی ہے۔۔۔ دم نہ ماریئے۔‘‘
’’دو رویہ کھڑے ہو جاؤ، شلواروں اور غراروں کی ایک نئی کھیپ آ رہی ہے۔‘‘
’’تشریف لے جایئے، معزز خواتین۔‘‘
’’شکریہ!‘‘
’’غالب غریب ساری عمر سوچتا رہا۔ یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں۔ غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے۔‘‘
’’میں گیٹ بند کر رہا ہوں۔‘‘
’’الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا۔‘‘
’’ٹھہرو مسٹر گیٹ کیپر، چند میکس فیکٹر کی لپ اسٹکیں اور تشریف لا رہی ہیں۔‘‘
’’مشاعرہ شروع ہونے والا ہے۔‘‘
’’خالہ اماں کا کیا حال ہے؟‘‘
’’اللہ کا شکر ہے۔ تمہیں بہت یاد کرتی ہیں۔‘‘
’’تشریف کیوں نہیں لائیں؟‘‘
’’کم بخت درزی وقت پر کپڑے نہ لایا۔۔۔ لایا تو بلاؤز غلط تھا۔‘‘
’’انہوں نے بغیر آستینوں کے کہا تھا۔‘‘
’’ان درزیوں پر خدا کی مار۔‘‘
’’الیچی آئی باجی نارنگی؟‘‘
’’ہائیں۔۔۔ وہ سامنے تو بیٹھی ہے ڈائس پر۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ ساتھ کون ہے؟‘‘
’’کم بخت پر کرتی اور غرارہ کتنا پھبتا ہے۔‘‘
’’خاک بھی نہیں۔‘‘
’’یہ جو اس کا چچیرا بھائی انار ہے، خدا کی قسم کھلتا ہے۔۔۔ کون کہتا ہے کہ یہ خوبصورت ہے۔‘‘
’’بھئی خدا لگتی کہوں گی، اچھا خوبصورت جوان ہے۔‘‘
’’معزز خواتین و حضرات! اب آپ کو حضرت آڑو چیخ پوکھلوی اپنا کلام سنائیں گے۔‘‘
’’ہو ہو۔ ہا ہا۔۔۔ دھڑ دھڑ۔۔۔ کھٹ کھٹ۔۔۔ پھٹ پھٹ۔۔۔ ٹیں ٹیں۔۔۔ ٹاں ٹاں۔‘‘
’’یہ کیا طوفان بدتمیزی ہے؟‘‘
’’ہاں باجی نارنگی۔۔۔ پہلے شاعر کا کلام بھی اسی شور کے باعث ہم نے مس کر دیا۔‘‘
’’ڈیمنڈ۔۔۔ سوائنز۔‘‘
’’کرنل مچنگا صاحب۔ فرمایئے آپ تبدیل ہو کے یہاں کب آ رہے ہیں؟‘‘
’’کیا بتاؤں میاں چقندر صاحب! وہ جو،ڈی او ہے نا۔ اس کا جو،سی اوہے وہ بڑا پی او ہے اور آپ جانتے ہیں کہ ان سب کے اوپر جو زیڈ او ہے وہ تو۔۔۔ واہ، سبحان اللہ، مکرر، مکرر!‘‘
’’کیا ہوا کرنل صاحب؟‘‘
’’میرا خیال ہے اس شاعر سے ایک اچھا شعر ہو گیا تھا۔‘‘
’’تو مشاعرہ شروع ہو چکا ہے؟‘‘
’’میرا خیال ہے۔۔۔ ٹھہریئے میں کسی سے دریافت کرتا ہوں۔‘‘
’’ کیا کہتی ہے تو۔۔۔ تو وہ سچ مچ۔۔۔ او گاڈ۔۔۔ ہاؤ شیم فل۔‘‘
’’ہاں ڈارلنگ۔۔۔ بھاگ ز۔۔۔‘‘
’’ کیا کہتی ہو۔۔۔ تو وہ سچ مچ۔۔۔ اوگاڈ۔۔۔ ہاؤ شیم فل!‘‘
’’ہاں ڈارلنگ، بھاگ گئی اس کے ساتھ۔‘‘
’’بڈھے باپ کے منہ پر کلنک کا ٹیکہ لگا گئی، اب کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔‘‘
’’وہ میجر اخروٹ تھا۔۔۔ لفٹنٹ چلغوزہ۔۔۔ یا وہ۔۔۔ کیا نام تھا اس کا؟‘‘
’’بس وہی تھا۔۔۔ ڈاکٹر بادام۔‘‘
’’اردوشاعری کبھی میری سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘
’’سیم ہئیر۔۔۔ جانے کیا بک رہا ہے؟‘‘
’’ختم کر چکا ہے۔۔۔ چلو تالی بجا دو۔‘‘
’’باجی نارنگی۔۔۔ وہ بڈھی کھوسٹ دیکھی آپ نے؟‘‘
’’کون؟‘‘
’’مسز۔۔۔‘‘
’’اب آپ کو حضرت آلو بخارا اپنا کلام بلاغت نظام سنائیں گے۔‘‘
’’نظام حیدرآباد؟‘‘
’’تم چھوڑو۔۔۔ ہاں وہ مسز کون؟‘‘
’’وہی۔۔۔ جس نے ۲۵ برس کے نوجوان سے شادی کی ہے۔‘‘
’’ ہاں، ہاں۔۔۔ خدا اس کو غارت کرے۔‘‘
’’ذرا گردن موڑ کر پچھلی صف میں دیکھو۔‘‘
’’کس اطمینان سے بیٹھی ہے اپنے شوہر کے ساتھ۔‘‘
’’اور دیکھو وہ ایڈیٹ بھی کتنا مطمئن ہے۔‘‘
’’ہاں تو کیا نظام حیدرآباد اپنا کلام سنا چکے؟‘‘
’’معلوم نہیں میرا خیال ہے سنا رہے ہیں۔۔۔ دیکھو وہ کون اندر آ رہا ہے؟‘‘
’’ہائے کتنی سویٹ ہے، معلوم نہیں کون ہے۔‘‘
’’ہو ہو۔ ہا ہا۔ پری چہرہ نسیم۔۔۔ دل کا ساز بھی کیا ساز ہے، بج رہا ہے اور بے آواز ہے۔‘‘
’’یہ نسیم بانو ہے؟‘‘
’’نہیں۔۔۔ معلوم نہیں کون ہے۔۔۔ یہ پیچھے کے لوگ کیا خرافات بک رہے ہیں؟‘‘
’’اب آپ نے اشارتاً مجھے بتایا تو معاملہ روشن ہوا۔۔۔ ورنہ لوگ۔۔۔‘‘
’’جاہل ہیں۔ ابھی تک ہمارے لیول تک نہیں پہنچے۔‘‘
’’قصہ کیا تھا؟‘‘
’’بہت ہی معمولی۔۔۔‘‘
’’ڈاکٹر بادام نے پروپوز کیا تو اس نے مجھ سے کہا، ڈیڈی میں فوراً کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتی۔‘‘
’’اب آپ کو حضرت پپیتا پتیانوی۔۔۔‘‘
’’لعنت بھیجئے اس پر۔۔۔ آپ کی صاحب زادی کی فراست کی داد دینی چاہیئے۔‘‘
’’اس نے مجھ سے کہا کہ میں چند دن ڈاکٹر بادام کے ساتھ رہوں گی، اس کے بعد فیصلہ کروں گی۔‘‘
’’واہ وا۔۔۔ واہ وا۔۔۔ مکرر۔۔۔ مکرر۔۔۔‘‘
’’کیا فرمایا آپ نے؟‘‘
’’جی، میں حضرت پپیتا کے خدا معلوم کس شعر کی داد دے رہا تھا۔۔۔ میرا حلق خشک ہو رہا ہے۔۔۔ فلاسک ہے میرے پاس۔۔۔ شوق فرمایئے گا؟‘‘
’’اب آپ کو حضرت۔۔۔‘‘
’’خدا کی پناہ بھئی چقندر میاں، میں اتنی دیر جنگ میں رہا، لیکن اتنا شور میں نے میدان جنگ میں بھی نہیں سنا تھا۔‘‘
’’اب شور بند ہو گیا ہے۔ بیگم خوبانی نے مس رس بھری کو چوتھی بار سنانے پر آمادہ کر لیا ہے۔‘‘
’’بیگم خوبانی بھی ڈبیا میں بند رکھنے کے قابل ہیں۔‘‘
’’ان کے شوہر کہاں ہوتے ہیں؟‘‘
’’بیچارہ اپنے کاموں میں الجھا رہتا ہے۔‘‘
’’بڑا شریف آدمی ہے۔‘‘
’’ہاں کرنل صاحب!‘‘
’’دھمک دھمک۔۔۔ دھڑ دھڑ۔۔۔ چھنن چھنن۔۔۔ پٹاخ۔۔۔ چھناک!‘‘
’’کیا ہوا؟‘‘
’’ایک اور دروازہ ٹوٹ گیا ہے۔‘‘
’’کتنے دروازے ہیں اس ہال میں؟‘‘
’’تیس چالیس کے قریب ہوں گے۔‘‘
’’تو کوئی ہرج نہیں۔‘‘
’’الیچی چلو اٹھو۔ تمہارا نام پکارا گیا ہے۔‘‘
’’نہیں نہیں۔ دیکھو تو کیا غل غپاڑہ مچا ہے۔‘‘
’’پہلا موقعہ ہے ممکن ہے لے اڑو۔‘‘
’’کسے؟‘‘
’’مشاعرے کو۔‘‘
’’محترمہ الیچی صاحبہ تشریف لائیں۔‘‘
’’نہیں چاہیئے، نہیں چا ہیئے، رس بھری۔۔۔ رس بھری۔۔۔ الیچی ویچی نہیں۔‘‘
’’الیچی ڈیر۔۔۔ اٹھو بھی۔ دیکھو آلوچہ صاحب بھی تمہیں اشارے کر رہے ہیں۔‘‘
’’میں نہیں جاؤں گی۔‘‘
’’دیکھو آلوچہ صاحب خود مائیکروفون پر آئے ہیں۔‘‘
’’میں محترم الیچی صاحبہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ تشریف لائیں۔ معاف فرمایئے گا صدر محترم۔۔۔ معزز خواتین اور معزز حضرات۔۔۔ یہ الیچی صاحبہ کا پہلا موقع ہے۔‘‘
’’آپ کون ہوتے ہیں، بیٹھ جایئے، بیٹھ جایئے، کوئی گردن نا پیئے اس کی۔ رس بھری، ہو، ہو۔۔۔ ہاہا۔۔۔ اُو اُو۔۔۔‘‘
’’اٹھو الیچی۔‘‘
’’باجی نارنگی۔۔۔ بہت ظلم ہوا۔ بیچاری الیچی کے ساتھ۔‘‘
’’گھبرا گئی۔‘‘
’’اوندھے منہ گر پڑی۔‘‘
’’لے گئے اسٹریچر پر ڈال کر۔‘‘
’’نہیں، ویسے ہی اٹھا کر لے گئے ہیں۔۔۔ کرنل مچنگا دیکھ رہے ہیں اسے۔‘‘
’’تو بالکل ٹھیک ہو جائے گی۔‘‘
’’خی خی خی خی۔۔۔‘‘
’’سب دروازے توڑ ڈالے گئے۔‘‘
’’اوئی!‘‘
’’ یہ کیا بدتمیزی ہے؟‘‘
’’سوائنز!‘‘
’’بروٹسس!‘‘
’’میرا غرارہ!‘‘
’’میرا دوپٹہ!‘‘
’’باجی نارنگی، الائچی بے ہوش ہو گئی۔‘‘
’’میں خود ہو رہی ہوں۔‘‘
’’خالہ جان کا میک اپ سب غارت ہو گیا۔‘‘
’’معزز خواتین و حضرات! گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔ پولس آ رہی ہے۔‘‘
’’سب چلے گئے، ہال سنسان ہے، آہا! یہ کیا ہے؟ کرنل مچنگا کا وسکی کا فلاسک۔۔۔ واہ بس دو گھونٹ کافی ہیں۔۔۔ اب میں اپنا کلام سناتا ہوں۔‘‘
’’غیر معزز خواتین و غیر معزز حضرات! خاکسار انگور بے شاخی ہے، اللہ شافی، اللہ کافی، لیجئے میرا کلام سنئے، عرض کیا ہے۔
زاغ کی چونچ میں انگور خدا کی قدرت
پہلوئے حور میں لنگور خدا کی قدرت
یوں تو الیچی بھی، موسمی بھی، نارنگی بھی
ہاتھ میں آج چقندر کے ہے سارنگی بھی
بات چل جاتی ہے اس بزم میں بے ڈھنگی بھی
زلف اشعار کو سلجھا نہ سکی کنگھی بھی
الٹا دنیا کا ہے دستور خدا کی قدرت
پہلوئے حور میں لنگور خدا کی قدرت
آداب بجا لاتا ہوں۔۔۔ تسلیمات عرض ہے۔۔۔ لیجئے حضرات! پولس بھی عین موقع پر پہنچ گئی۔۔۔ میں گرفتار ہونا چاہتا ہوں۔‘‘
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |