لے اڑا رنگ فلک جلوۂ رعنائی کا
لے اڑا رنگ فلک جلوۂ رعنائی کا
عکس ہے قوس قزح میں تری انگڑائی کا
اس قدر ناز ہے کیوں آپ کو یکتائی پر
دوسرا نام ہے یہ بھی مری تنہائی کا
عجب انداز سے کچھ مہر خموشی ٹوٹی
وصف پیدا ہوا تصویر میں گویائی کا
کھل رہا ہے تری رحمت کی بدولت ورنہ
کون تھا دیکھنے والا گل صحرائی کا
ہو گئی میرے گناہوں کی سیاہی مقبول
سنگ اسود پہ چڑھا رنگ جبیں سائی کا
صورت یاس سے آئینۂ حیرت ہو کر
دیکھتے رہ گئے چہرہ وہ تمنائی کا
بے خودی دیکھ کے میری سر محفل پوچھا
نام مشہور ہے کیفیؔ اسی صہبائی کا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |