لے گیا دل کون میرا سو بشر کے سامنے
لے گیا دل کون میرا سو بشر کے سامنے
کس کی صورت پھرتی ہے یا رب نظر کے سامنے
امتحان حسن آئینے میں لیتے ہیں مدام
رکھ کے وہ تصویر یوسف کو نظر کے سامنے
دور آبادی سے رکھنا اپنے دیوانے کو یار
گھر نہ آ جائے کسی کا چشم تر کے سامنے
خط کہاں وہ انتظار خط کی بھی لذت گئی
حیف کیوں رویا میں اس کے نامہ بر کے سامنے
یار سے نایابؔ اب منہ پھیرنا اچھا نہیں
طوطیٔ دل باندھ شہباز نظر کے سامنے
This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries). |