لے گیا گھر سے انہیں غیر کے گھر کا تعویذ

لے گیا گھر سے انہیں غیر کے گھر کا تعویذ
by ریاض خیرآبادی

لے گیا گھر سے انہیں غیر کے گھر کا تعویذ
ہم نے دیکھا نہ سنا ایسے اثر کا تعویذ

دے کے بو زلف کی رکھ لو تہہ محرم دل کو
خواب میں پھر نہ ڈرو گے یہ ہے ڈر کا تعویذ

صدقے تیرے مجھے تسکین سے تسکین ہوئی
خط ترا تھا کہ مرے درد جگر کا تعویذ

ہو مبارک تجھے آنکھوں میں سمانا دن رات
زیب بازو رہے ہر وقت نظر کا تعویذ

رہ گیا غیر کے گھر جائیے بھی لائیے بھی
آپ کے سر کی قسم آپ کے سر کا تعویذ

باندھ لے بہر خدا اپنے بھرے بازو پر
نظر بد سے بچائے گا نظر کا تعویذ

گھر گئے اپنے بتا کر وہ ہمیں راہ عدم
وصل کی شب کی نشانی ہے کمر کا تعویذ

ہاتھ بھی آئیں تو ہے ہاتھ لگانا مشکل
سر‌ بازو ہے بندھا خاص اثر کا تعویذ

ڈر سے ان کے بھرے بازو کئی کاغذ اترے
ہاتھ تھاما تھا شب وصل کہ سرکا تعویذ

دل ہے اب مانگ کے آغوش میں دن رات ریاضؔ
یہ تو سر چڑھ کے بنا یار کے سر کا تعویذ

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse