مئے گل رنگ سے لبریز رہیں جام سفید
مئے گل رنگ سے لبریز رہیں جام سفید
چشم بدبیں کو کرے گردش ایام سفید
بسکہ اس بت کی طبیعت ہے زمانے سے خلاف
صبح پوشاک سیہ ہے تو سر شام سفید
کون سی شام نہیں صبح ہوئی اے مغرور
ایک دن ہوتی ہے یہ زلف سیہ فام سفید
قطرۂ اشک میں سرخی کا کہیں نام نہیں
لہو تیرا بھی ہوا اے دل ناکام سفید
دل کی تسکیں کو میں پیغام صفا کا سمجھوں
پرزہ کاغذ کا جو بھیجے وہ گل اندام سفید
چاندنی رات میں وہ ماہ جو یاد آتا ہے
کاٹنے دوڑتے ہیں مجھ کو در و بام سفید
وصل کی شب جو ہوئی صبح یکایک تو ہوا
میں ادھر زرد ادھر روئے دلارام سفید
نسبت اس فتنۂ دوراں سے کوئی اندھا دے
یار کی آنکھ سیہ دیدۂ بادام سفید
کسی حالت میں نہیں فکر سے دشمن غافل
آفت مرغ ہے رنگین ہو بادام سفید
بس ہے اتنی ہی زمانہ کی دو رنگی آتشؔ
مئے گل رنگ سے لبریز رہیں جام سفید
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |