مائل ہوں گل بدن کا مجھے گل سیں کیا غرض
مائل ہوں گل بدن کا مجھے گل سیں کیا غرض
کاکل میں اس کے بند ہوں سنبل سیں کیا غرض
خونیں دلوں کے قتل کوں سیدھی نگاہ بس
اس تیغ کوں فسان تغافل سیں کیا غرض
رسوائی جہاں سیں مجھے فکر کچھ نہیں
دیوانۂ جنوں کوں تأمل سیں کیا غرض
بس ہے غبار راہ لباس شہنشہی
سلطان بے خودی کوں تجمل سیں کیا غرض
جام مئے الست سیں بے خود ہوں اے سراجؔ
دور شراب و شیشۂ پر مل سیں کیا غرض
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |