ماتمی جلسہ

ماتمی جلسہ (1941)
by سعادت حسن منٹو
325298ماتمی جلسہ1941سعادت حسن منٹو

رات رات میں یہ خبر شہر کے اس کونے سے اس کونے تک پھیل گئی کہ اتاترک کمال مر گیا ہے۔ ریڈیو کی تھرتھراتی ہوئی زبان سے یہ سنسنی پھیلانے والی خبر ایرانی ہوٹلوں میں سٹے بازوں نے سنی جو چائے کی پیالیاں سامنے رکھے آنے والے نمبر کے بارے میں قیاس دوڑا رہے تھے اور وہ سب کچھ بھول کر کمال اتاترک کی بڑائی میں گم ہوگئے۔

ہوٹل میں سفید پتھر والے میز کے پاس بیٹھے ہوئے ایکا سٹوری نے اپنے ساتھی سے یہ خبر سن کر لرزاں آواز میں کہا، ’’مصطفےٰ کمال مر گیا!‘‘ اس کے ساتھی کے ہاتھ سے چائے کی پیالی گرتے گرتے بچی، ’’کیا کہا، مصطفےٰ کمال مرگیا؟‘‘

اس کے بعد دونوں میں اتاترک کمال کے متعلق بات چیت شروع ہوگئی۔ ایک نے دوسرے سے کہا، ’’بڑے افسوس کی بات ہے، اب ہندوستان کا کیا ہوگا؟ میں نے سنا تھا یہ مصطفےٰ کمال یہاں پر حملہ کرنے والا ہے۔۔۔ ہم آزاد ہو جاتے، مسلمان قوم آگے بڑھ جاتی۔۔۔ افسوس تقدیر کے ساتھ کسی کی پیش نہیں چلتی‘‘!

دوسرے نے جب یہ بات سنی تو اس کے روئیں بدن پر چیونٹیوں کے مانند سرکنے لگے۔ اس پر ایک عجیب و غریب کیفیت طاری ہوگئی۔ اس کے دل میں جو پہلا خیال آیا، یہ تھا، ’’مجھے کل جمعہ سے نماز شروع کردینی چاہیے۔۔۔‘‘ اس خیال کو بعد میں اس نے مصطفےٰ کمال پاشا کی شاندار مسلمانی اور اس کی بڑائی میں تحلیل کردیا۔

بازار کی ایک تنگ گلی میں دو تین کوکین فروش کھاٹ پر بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ ایک نے پان کی پیک بڑی صفائی سے بجلی کے کھمبے پر پھینکی اور کہا، ’’میں مانتا ہوں، مصطفےٰ کمال بہت بڑا آدمی تھا۔ لیکن محمد علی بھی کسی سے کم نہیں تھا۔ یہاں بمبئی میں تین چار ہوٹلوں کا نام اسی پر رکھا گیا ہے۔‘‘

دوسرے نے جو اپنی ننگی پنڈلیوں پر سے ایک کھردرے چاقو سے میل اتارنے کی کوشش کررہا تھا، اپنے دونوں ساتھیوں سے کہا، ’’محمد علی کی موت پر تو بڑی شاندار ہڑتال ہوئی تھی۔۔۔‘‘

’’ہاں بھئی تو کل ہڑتال ہورہی ہے کیا؟‘‘ تیسرے نے ایک کی پسلیوں میں کہنی سے ٹہوکا دیا۔ اس نے جواب دیا، ’’کیوں نہ ہوگی۔۔۔ ارے اتنا بڑا مسلمان مر جائے اور ہڑتال نہ ہو۔‘‘

یہ بات ایک راہ گزرنے سن لی، اس نے دوسرے چوک میں اپنے دوستوں سے کہی اور ایک گھنٹے میں ان سب لوگوں کو جو دن کو سونے اور رات کو بازاروں میں جاگتے رہنے کے عادی ہیں، معلوم ہوگیا کہ صبح ہڑتال ہورہی ہے۔

ابو قصائی رات کو دو بجے اپنی کھولی میں آیا۔ اس نے آتے ہی طاق میں سے بہت سی چیزوں کو ادھر ادھر الٹ پلٹ کرنے کے بعد ایک پڑیا نکالی اور ایک دیگچی میں پانی بھر کر اس کو اس میں ڈال کر گھولنا شروع کردیا۔اس کی بیوی جو دن بھر کی تھکی ماندی ایک کونے میں ٹاٹ پر سو رہی تھی، برتن کی رگڑ سن کر جاگ پڑی۔ اس نے لیٹے لیٹے کہا،’’آگئے ہو؟‘‘

’’ ہاں آگیا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر ابو نے اپنی قمیص اتار کر دیگچی میں ڈال دی اور اسے پانی کے اندر مسلنا شروع کردیا۔اس کی بیوی نے پوچھا، ’’پر یہ تم کرکیارہے ہو؟‘‘

’’مصطفےٰ کمال مر گیا ہے، کل ہڑتال ہورہی ہے!‘‘ اس کی بیوی یہ سن کر گھبراہٹ کے مارے اٹھ کھڑی ہوئی، ’’کیا مارا ماری ہوگی؟میں تو ان ہر روز کے فسادوں سے بڑی تنگ آگئی ہوں۔‘‘ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی، ’’میں نے تجھ سے ہزار مرتبہ کہا ہے کہ تو ہندوؤں کے اس محلے سے اپنامکان بدل ڈال ،پر نہ جانے تو کب سنے گا!‘‘

ابو جواب میں ہنسنے لگا، ’’اری پگلی۔۔۔ یہ ہندو مسلمانوں کا فساد نہیں۔ مصطفےٰ کمال مر گیا ہے۔۔۔ وہی جو بہت بڑا آدمی تھا۔۔۔ کل اس کے سوگ میں ہڑتال ہوگی۔‘‘

’’جانے میری بلا، یہ بڑا آدمی کون ہے۔۔۔ پر یہ تو کیا کررہا ہے؟‘‘ بیوی نے پوچھا، ’’سوتا کیوں نہیں ہے!‘‘ قمیص کو کالا رنگ دے رہا ہوں۔۔۔ صبح ہمیں ہڑتال کرانے جانا ہے۔ ‘‘یہ کہہ کر اس نے قمیص نچوڑ کر دو کیلوں کے ساتھ لٹکا دی جو دیوار میں گڑی ہوئی تھیں۔

دوسرے روز صبح کو سیاہ پوش مسلمانوں کی ٹولیاں کالے جھنڈے لیے بازاروں میں چکر لگا رہی تھیں۔ یہ سیاہ پوش مسلمان دکانداروں کی دکانیں بند کرارہے تھے اور یہ نعرے لگا رہے تھے، ’’انقلاب زندہ باد۔انقلاب زندہ باد!‘‘

ایک ہندو نے جو اپنی دکان کھولنے کے لیے جارہا تھا یہ نعرے سنے اور نعرے لگانے والوں کو دیکھا تو چپ چاپ ٹرام میں بیٹھ کر وہاں سے کھسک گیا۔ دوسرے ہندو اور پارسی دکانداروں نے جب مسلمانوں کے ایک گروہ کو چیختے چلاتے اور نعرے مارتے دیکھا تو انھوں نے جھٹ پٹ اپنی دکانیں بند کرلیں۔

دس پندرہ سیاہ پوش گپیں ہانکتے ایک بازار سے گزر رہے تھے۔ ایک نے اپنے ساتھی سے کہا، ’’دوست ہڑتال ہوئی تو خوب ہے، پرویسی نہیں ہوئی جیسی محمد علی کے ٹیم پر ہوئی تھی۔۔۔ ٹرامیں تو اسی طرح چل رہی ہیں۔‘‘ اس ٹولی میں جو سب سے زیادہ جوشیلا تھا اور جس کے ہاتھ میں سیاہ جھنڈا تھا، تنک کر بولا، ’’آج بھی نہیں چلیں گی!‘‘ یہ کہہ کر وہ اس ٹرام کی طرف بڑھا جو لکڑی کے ایک شیڈ کے نیچے مسافروں کو اتار رہی تھی۔ ٹولی کے باقی آدمیوں نے اس کا ساتھ دیا اور ایک لمحہ کے اندر سب کے سب ٹرام کی سرخ گاڑی کے اردگرد تھے۔ سب مسافر زبردستی اتار دیےگیے۔

شام کو ایک وسیع میدان میں ماتمی جلسہ ہوا۔ شہر کے سب ہنگامہ پسند جمع تھے۔ خوانچہ فروش اور پان بیڑی والے چل پھر کر اپنا سودا بیچ رہے تھے۔ جلسہ گاہ کے باہر عارضی دکانوں کے پاس ایک میلہ لگا ہوا تھا، چاٹ کے چنوں اور ابلے ہوئے آلوؤں کی خوب بکری ہورہی تھی۔

جلسہ گاہ کے اندر اور باہر بہت بھیڑ تھی۔ کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ اس ہجوم میں کئی آدمی ایسے بھی چل پھر رہے تھے جو یہ معلوم کرنےکی کوشش میں مصروف تھے کہ اتنے آدمی کیوں جمع ہورہے ہیں۔ ایک صاحب گلے میں دور بین لٹکائے ادھر ادھر چکرکاٹ رہے تھے۔ دور سے اتنی بھیڑ دیکھ کر اور یہ سمجھ کر کہ پہلوانوں کا دنگل ہورہا ہے وہ ابھی ابھی اپنے گھر سے نئی دور بین لے کر دوڑے دوڑے آرہے تھے اور اس کا امتحان لینے کے لیے بےتاب ہورہے تھے، میدان کے آہنی جنگلے کے پاس دو آدمی کھڑے آپس میں بات چیت کررہے تھے۔ ایک نے اپنے ساتھی سے کہا، ’’بھئی یہ مصطفےٰ کمال توواقعی کوئی بہت بڑا آدمی معلوم ہوتا ہے۔۔۔ میں جو صابن بنانے والا ہوں اس کا نام ’کمال سوپ‘ رکھوں گا۔۔۔ کیوں کیسا رہے گا؟‘‘

دوسرے نے جواب دیا، ’’وہ بھی برا نہیں تھا جو تم نے پہلے سوچا تھا۔۔۔’ جناح سوپ‘ یہ جناح مسلم لیگ کا بہت بڑا لیڈر ہے۔‘‘

’’نہیں، نہیں۔ کمال سوپ اچھا رہے گا۔۔۔۔۔۔ بھائی مصطفےٰ کمال اس سے بڑا آدمی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنے ساتھی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا، ’’آؤ چلیں جلسہ شروع ہونے والا ہے۔‘‘ وہ دونوں جلسہ گاہ کی طرف چل دیے۔

جلسہ شروع ہوا۔

آغاز میں نظمیں گائی گئیں جن میں مصطفےٰ کمال کی بڑائی کا ذکر تھا پھر ایک صاحب تقریر کرنے کے لیے اٹھے۔ آپ نے کمال اتاترک کی عظمت بڑےبلند بانگ لفظوں میں بیان کرنا شروع کی۔ حاضرین جلسہ اس تقریر کو خاموشی سے سنتے رہے۔ جب کبھی مقرر کے یہ الفاظ گونجتے ،’’مصطفےٰ کمال نے درہ دانیال سے انگریزوں کو لات مار کے باہر نکال دیا۔ ‘‘یا’’ کمال نے یونانی بھیڑوں کو اسلامی خنجر سے ذبح کر ڈالا۔ ‘‘تو’’ اسلام زندہ باد ‘‘کے نعروں سے میدان کانپ کانپ اٹھتا۔یہ نعرے مقرر کی قوتِ گویائی کو اور تیز کردیتے اور وہ زیادہ جوش سے اتاترک کمال کی عظیم الشان شخصیت پر روشنی ڈالنا شروع کردیتا۔ مقرر کا ایک ایک لفظ حاضرین جلسہ کے دلوں میں ایک جوش و خروش پیدا کررہا تھا۔

’’جب تک تاریخ میں گیلی پولی کا واقعہ موجود ہے ،برطانیہ کی گردن ٹرکی کے سامنے خم رہے گی۔ صرف ٹرکی ہی ایک ایسا ملک ہے جس نے برطانوی حکومت کا کامیاب مقابلہ کیا،اور صرف مصطفےٰ کمال ہی ایسا مسلمان ہے جس نے غازی صلاح الدین ایوبی کی سپاہیانہ عظمت کی یاد تازہ کی۔ اس نے بہ نوک شمشیر یورپی ممالک سے اپنی طاقت کا لوہا منوایا۔ ٹرکی کو یورپ کا مردِ بیمار کہا جاتا تھا مگر کمال نے اسے صحت اور قوت بخش کر مردِ آہن بنا دیا۔‘‘

جب یہ الفاظ جلسہ گاہ میں بلند ہوئے تو ’’انقلاب زندہ باد، انقلاب زندہ باد‘‘ کے نعرے پانچ منٹ تک متواتر بلند ہوتے رہے۔ اس سے مقرر کا جوش بہت بڑھ گیا۔ اس نے اپنی آواز کو اور بلند کرکے کہنا شروع کیا، ’’کمال کی عظمت مختصر الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتی۔ اس نے اپنے ملک کے لیے وہ خدمات سرانجام دی ہیں جس کو بیان کرنے کے لیے کافی وقت چاہیے۔ اس نے ٹرکی میں جہالت کا دیوالیہ نکال دیا۔ تعلیم عام کردی۔ نئی روشنی کی شعاعوں کو پھیلایا۔ یہ سب کچھ اس نے تلوار کے زور سے کیا۔ اس نے دین کو جب علم سے علیحدہ کیا تو بہت سے قدامت پسندوں نے اس کی مخالفت کی مگر وہ سرِ بازار پھانسی پر لٹکا دیے گیے۔ اس نے جب یہ فرمان جاری کیا کہ کوئی تُرک رومی ٹوپی نہ پہنے تو بہت سے جاہل لوگوں نے اس کے خلاف آواز اٹھانا چاہی مگر یہ آواز ان کے گلے ہی میں دبا دی گئی۔اس نے جب یہ حکم دیا کہ اذان ترکی زبان میں ہو تو بہت سے مُلّاؤں نے عدولِ حکمی کی مگر وہ قتل کردیے گیے۔۔۔‘‘

’’یہ کفر بکتا ہے۔‘‘ جلسہ گاہ میں ایک شخص کی آواز بلند ہوئی اور فوراً ہی سب لوگ مضطرب ہوگئے۔

’’یہ کافر ہے جھوٹ بولتا ہے۔‘‘کے نعروں میں مقرر کی آواز گُم ہوگئی۔ پیشتر اس کے کہ وہ اپنا مافی الضمیر بیان کرتا اس کے ماتھے پر ایک پتھر لگا اور وہ چکرا کر اسٹیج پر گر پڑا۔ جلسے میں ایک بھگدڑ مچ گئی۔اسٹیج پر مقرر کا ایک دوست اس کے ماتھے پر سے خون پونچھ رہا تھا اور جلسہ گاہ ان نعروں سے گونج رہی تھی،’’مصطفےٰ کمال زندہ باد، مصطفےٰ کمال زندہ باد۔‘‘


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.