ماتم بہت رہا مجھے اشک چکیدہ کا

ماتم بہت رہا مجھے اشک چکیدہ کا
by نسیم دہلوی

ماتم بہت رہا مجھے اشک چکیدہ کا
آخر کو پاس آ ہی گیا نور دیدہ کا

نام فراق پھر نہ لیا میں نے عمر بھر
تھا ذائقہ زباں پہ عذاب چشیدہ کا

اب وہ مزا نہیں لب شیریں کے قند میں
چوسا ہوا ہے یہ کسی خدمت رسیدہ کا

اے چرخ پیر زور جوانی سے در گزر
اب پاس چاہیے تجھے پشت خمیدہ کا

ابرو میں خم جبیں میں شکن آنکھ میں غضب
کیا مدعا ہے قاتل خنجر کشیدہ کا

دولت غرض نہ تھی جو دعا سے ہوئی حصول
تھا اور مدعا مرے دست کشیدہ کا

اے ساکنان چرخ معلی بچو بچو
طوفاں ہوا بلند مرے آب دیدہ کا

وہ نا توانیاں ہیں کہ جسم ضعیف پر
جامہ ہے عنکبوت کے دام تنیدہ کا

بے دید دید میں نہیں آتے کسی طرح
غم آشیاں ہے طائر رنگ پریدہ کا

اڑتے ہیں ہوش کوئی بھلا کس طرح سنے
افسانہ تیرے وحشیٔ از خود رمیدہ کا

او گل خیال ہے عرق جسم کا ترے
شیشہ ہے دل ہمارا گلاب چکیدہ کا

یاد نگاہ مست سے ہے دل کو انتشار
پیمانہ ہے خراب شراب چکیدہ کا

قاتل خدا سے ڈر ہوس ذبح تا کجا
نالہ نہ سن کسی کے گلوئے بریدہ کا

مستی کے ولولوں کا جوانی میں لطف ہے
پیری میں دھیان چاہیے قد خمیدہ کا

جلوے دکھا رہا ہے یہ فرش زمردیں
سبزہ مزار پر ہے گیاہ دمیدہ کا

چڑھتی ہے روز چادر گل جلتے ہیں چراغ
یہ ڈھیر ہے ضرور کسی برگزیدہ کا

بالوں کو اے نسیمؔ رنگو گے خضاب سے
سک کو عصا بناؤ گے پشت خمیدہ کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse