مانند شمع بزم پگھلنے کے واسطے
مانند شمع بزم پگھلنے کے واسطے
پیدا ہوا ہوں عشق میں جلنے کے واسطے
وہ ناز کر رہے ہیں شب وصل اور ادھر
ارماں تڑپ رہے ہیں نکلنے کے واسطے
بلبل سے کہہ دو شیوۂ فریاد چھوڑ دے
آئیں گے باغ میں وہ ٹہلنے کے واسطے
رونے کو ہجر یار میں آنکھیں عطا ہوئیں
بخشا گیا ہے دل بھی مچلنے کے واسطے
سچ پوچھئے تو عشق میں خود کو بدل لیا
ہم نے خیال یار بدلنے کے واسطے
ہاجرؔ قرار دل کو نہ آیا کسی طرح
کیا کیا کیا نہ اس کے بہلنے کے واسطے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |