مانگے ہے ترے ملنے کو بے طرح سے دل آج
مانگے ہے ترے ملنے کو بے طرح سے دل آج
کل کیا ہے جو ملنا ہے مری جان تو مل آج
پھر صبح سے آشوب قیامت ہے جہاں میں
چہرہ پہ ترے کن نے بنایا ہے یہ تل آج
اے گریہ تو خاطر سے مری کیجو نہ صرفہ
میں خون دل خستہ کیا تجھ پہ بحل آج
چاہے ہے اگر کل کو تری نشو و نما ہو
دل کھول کے دانہ کی طرح خاک میں رل آج
کیا سینہ جو تڑپھوں کو نگہ کی تری جھیلے
اس تیر سے رہ جائے نہ فولاد کی سل آج
یارب نہ پڑے اصل سے اپنی کوئی یاں دور
یہ آب تھا سب جتنی کہ دیکھے ہے تو گل آج
قائمؔ یہ غضب کل تو نہ ٹوٹے تھا ترے پر
دیکھا ہے کہیں تیں وہ بت مہر گسل آج
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |