ماہِ نَو
ٹُوٹ کر خورشید کی کشتی ہوئی غرقابِ نیل
ایک ٹکڑا تیرتا پھرتا ہے رُوئے آبِ نیل
طشتِ گردُوں میں ٹپکتا ہے شفَق کا خونِ ناب
نشترِ قُدرت نے کیا کھولی ہے فصدِ آفتاب
چرخ نے بالی چُرا لی ہے عروسِ شام کی
نیل کے پانی میں یا مچھلی ہے سیمِ خام کی
قافلہ تیرا رواں بے منّتِ بانگِ درا
گوشِ انساں سُن نہیں سکتا تری آوازِ پا
گھٹنے بڑھنے کا سماں آنکھوں کو دِکھلاتا ہے تُو
ہے وطن تیرا کدھر، کس دیس کو جاتا ہے تُو
ساتھ اے سیّارۂ ثابت نما لے چل مجھے
خارِ حسرت کی خلش رکھتی ہے اب بے کل مجھے
نور کا طالب ہوں، گھبراتا ہوں اس بستی میں مَیں
طفلکِ سیماب پا ہوں مکتبِ ہستی میں مَیں
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |