ماہ و سال
اسی روش پہ ہے قایم مزاج دیدہ و دل
لہو میں اب بھی تڑپتی ہیں بجلیاں کہ نہیں
زمیں پہ اب بھی اترتا ہے آسماں کہ نہیں؟
کسی کے جیب و گریباں کی آزمائش میں
کبھی خود اپنی قبا کا خیال آتا ہے
ذرا سا وسوسۂ ماہ و سال آتا ہے؟
کبھی یہ بات بھی سوچی کہ منتظر آنکھیں
غبار راہ گزر میں اجڑ گئی ہوں گی
نظر سے ٹوٹ چکے ہوں گے خواب کے رستے
وہ ماہتاب سی نیندیں بچھڑ گئی ہوں گی
نیاز خواجگی و شان سروری کیا ہے
شعار مشفقی و طرز دلبری کیا ہے
یہ بے رخی یہ ادائے ستم بھی پوچھیں گے
ہماری عمر کے ہو لو تو ہم بھی پوچھیں گے
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |