ماہ کامل ہو مقابل یار کے رو سے چے خوش
ماہ کامل ہو مقابل یار کے رو سے چے خوش
خم ہو دم مارے ہلال اس تیغ ابرو سے چے خوش
اک جھلک بھی یار کی شوخی کی تجھ میں نہیں اے برق
تسپہ ہم سر ہو تو اس کی تندئ خو سے چے خوش
اس کی جولاں کی ہوا سے گئی ہے برباد اور اس پر
مدعی ہے نکہت گل یار کی بو سے چے خوش
آنکھ میں ہرنوں کی خاک افگن ہے اس کی گرد راہ
تسپہ گردن کش ہیں پی کے چشم جادو سے چے خوش
گرچہ سنبل ہے اے عزلتؔ تیرہ بخت اور داغ رشک
پیچ و خم کھا کر ہے سرکش پی کے گیسو سے چے خوش
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |