مایوس ازل ہوں یہ مانا ناکام تمنا رہنا ہے
مایوس ازل ہوں یہ مانا ناکام تمنا رہنا ہے
جاتے ہو کہاں رخ پھیر کے تم مجھ کو تو ابھی کچھ کہنا ہے
کھینچیں گے وہاں پھر سرد آہیں آنکھوں سے لہو پھر بہنا ہے
افسانہ کہا تھا جو ہم نے دہرا کے وہیں تک کہنا ہے
دشوار بہت یہ منزل تھی مر مٹ کے تہہ تربت پہنچے
ہر قید سے ہم آزاد ہوئے دنیا سے الگ اب رہنا ہے
رکھتا ہے قدم اس کوچہ میں ذرے ہیں قیامت زا جس کے
انجام وفا ہے نظروں میں آغاز ہی سے دکھ سہنا ہے
اے پیک اجل تیرے ہاتھوں آزاد تعلق روح ہوئی
تا حشر بدل سکتا ہی نہیں ہم نے وہ لباس اب پہنا ہے
اے گریۂ خوں تاثیر دکھا اے جوش فغاں کچھ ہمت کر
رنگیں ہو کسی کا دامن بھی اشکوں کا یہاں تک بہنا ہے
اپنا ہی سوال اے دلؔ ہے جواب اس بزم میں آخر کیا کہیے
کہنا ہے وہی جو سننا ہے سننا ہے وہی جو کہنا ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |