مت مردمک دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں

مت مردمک دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں
by مرزا غالب

مت مردمک دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں
ہیں جمع سویداۓ دل چشم میں آہیں

کس دل پہ ہے عزم صف مژگان خود آرا
آئینے کے پایاب سے اتری ہیں سپاہیں

دیر و حرم آئینۂ تکرار تمنا
واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں

جوں مردمک چشم سے ہوں جمع نگاہیں
خوابیدہ بہ حیرت کدۂ داغ ہیں آہیں

پھر حلقۂ کاکل میں پڑیں دید کی راہیں
جوں دود فراہم ہوئیں روزن میں نگاہیں

پایا سر ہر ذرہ جگر گوشۂ وحشت
ہیں داغ سے معمور شقائق کی کلاہیں

یہ مطلع اسدؔ جوہر افسون سخن ہو
گر عرض تپاک جگر سوختہ چاہیں

حیرت کش یک جلوۂ معنی ہیں نگاہیں
کھینچوں ہوں سویداۓ دل چشم سے آہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse