مت پوچھ تو جانے دے احوال کو فرقت کے
مت پوچھ تو جانے دے احوال کو فرقت کے
جس طور کٹے کاٹے ایام مصیبت کے
جی میں ہے دکھا دیجے یک روز ترے قد کو
جو شخص کہ منکر ہیں اے یار قیامت کے
کہتا ہوں غلط تجھ سے میں دل کو چھڑاؤں گا
چھٹتے ہیں کہیں پیارے باندھے ہوئے الفت کے
قصر و محل منعم تجھ کو ہی مبارک ہوں
بیٹھے ہیں ہم آسودہ گوشہ میں قناعت کے
بے دار چھپائے سے چھپتے ہیں کوئی تیرے
چہرہ سے نمایاں ہیں آثار محبت کے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |