مثل حباب بحر نہ اتنا اچھل کے چل
مثل حباب بحر نہ اتنا اچھل کے چل
ہیں ساتھ ساتھ موج حوادث سنبھل کے چل
برگ خزاں رسیدہ سے آتی تھی یہ صدا
اس باغ سبز پر کف افسوس مل کے چل
درپئے نہنگ مرگ ہے درپیش چاہ گور
مستی نہ کر حواس میں آ مت مچل کے چل
سوتے ہیں لوگ تار ہیں کوچے گزر ہے تنگ
تاریک شب ہے ساتھ چراغ عمل کے چل
اے تن پرست جامۂ صورت کثیف ہے
بزم حضور دوست میں کپڑے بدل کے چل
آتی ہے زیر خاک سے آواز ہر قدم
افتادگان راہ کے سر مت کچل کے چل
کب تک کثافتوں میں رہے گا برنگ سرد
آب رواں کی طرح نکل اور نکل کے چل
جوں شمع تجھ کو آتش غم سے گریز کیوں
سر پر دھری ہے آگ قدم تک پگھل کے چل
جوں نخل شمع برق تجلی گرے کہیں
داغوں سے آبلوں سے بیاںؔ پھول پھل کے چل
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |