مجھے اس جھمک سے آیا نظر اک نگار رعنا

مجھے اس جھمک سے آیا نظر اک نگار رعنا
by نظیر اکبر آبادی

مجھے اس جھمک سے آیا نظر اک نگار رعنا
کہ خور اس کے حسن رخ کو لگا تکنے ذرہ آسا

خد و خال خوبی آگیں لب لعل پاں سے رنگیں
نظر آفت دل و دیں مژہ صد مضرت افزا

پڑی رخ پہ زلف پر خم مسی رشک رنگ نیلم
غرض اس طرح کا عالم کہ پری کہے اہا ہا

کہا ہم نے اے سمن بر پری چہرہ مہر پیکر
جو چلی ہو یوں جھمک کر کہو عزم ہے کدھر کا

ہے یہ وقت سیر بستاں پھلیں ہم بھی ساتھ اے جاں
کہا سن کے یہ ارے میاں کوئی تم بھی ہو تماشا

ہے یہ آشنائی اگلی نہ شناخت اک دو دن کی
جو ہے دل دہی کی مرضی تو ہے لوچ پھر یہ کیسا

کہا جب نظیرؔ ہم نے "یہی دل ہیں ہم تو رکھتے"
تو کہا جو نیکی ہووے تو پھر اس کا پوچھنا کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse